ایمازون کے جنگل میں 40 دن گزارنے والے بچوں پر کیا بیتی؟

اہل خانہ نے انکشاف کیا ہے کہ طیارے کی تباہی کے بعد زندہ بچ جانے والے بچوں میں سب سے بڑی 13 سالہ لیسلی نے ایمازون کے گھنے جنگل میں خود کو اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو 40 دن تک زندہ رکھنے کے لیے ’بقا کی جنگ‘ لڑی۔

نو جون 2023 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں کولمبیا میں طیارے کی تباہی کے بعد ایمازون کے گھنے جنگل میں 40 دن تک زندہ رہنے والے بچوں کو دیکھا جاسکتا ہے (تصویر: ہینڈ آؤٹ/کولمبیئن پریزیڈنسی/ اے ایف پی)

کولمبیا میں طیارے کی تباہی کے بعد 40 دن تک ایمازون کے گھنے جنگلات میں گزار کر زندہ بچ جانے والے چار بہن بھائیوں کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بچوں نے اپنی تکالیف کے بارے میں جو کچھ بتایا ان کے والد، خاندان کے دیگر افراد اور امدادی ٹیموں نے وہ تفصیل ذرائع ابلاغ کے ساتھ شیئر کی ہے۔

ایک ماہ سے زیادہ عرصہ جنگل میں تنہا رہنے کے بعد مقامی ویتوتو قبیلے سے تعلق رکھنے والے بچوں جن کی عمریں 13، نو، پانچ اور ایک سال ہیں، کو نو مئی کو ریسکیو کرکے طیارے کے ذریعے جنگل سے باہر منتقل کیا گیا تھا اور اب وہ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوتا کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

بچوں کے والد مینوئل ملر رانوک نے اتوار کو ہسپتال کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ یکم مئی کو طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئی تھیں اور وہ جنگل میں چار دن تک زندہ رہیں۔ اس دوران بچے انہی کے پاس رہے۔

رانوک کا کہنا تھا کہ ’ایک بات جو 13 سالہ لیسلی نے مجھ پر واضح کی وہ یہ تھی کہ ان کی والدہ چار دن تک زندہ رہی۔‘

’بقا کی جنگ‘

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق خاندان نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں میں سب سے بڑی 13 سالہ لیسلی نے ایمازون کے اس گھنے جنگل میں خود کو اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو 40 دن تک زندہ رکھنے کے لیے ’بقا کی جنگ‘ لڑی۔

بچوں کی خالہ دیمارس موکوتوئی نے بتایا کہ کسی بیرونی امداد کے بغیر لیسلی اور نو سالہ سولینی نے زندہ رہنے کے لیے جنگل کے بارے میں اپنی معلومات سے کام لیا۔

کیراکول نیوز نیٹ ورک سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ لیسلی اور سولینی اکثر ایک کھیل کھیلتی تھیں، جس میں وہ کسی بھی قدرتی آفت سے قبل ’چھوٹے کیمپ‘ بناتی تھیں۔

لیسلی نے طیارے کے حادثے کے بعد اسی کھیل سے مدد لی اور بالوں میں باندھنے والے ربنز کی مدد سے کیمپ بنائے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو جنگل میں محفوظ رکھا، جہاں تیندوے، شیر اور سانپ پائے جاتے ہیں اور مسلح گروہ بھی اس علاقے کو منشیات کی سمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

بچوں کو بچانے کے بعد کولمبیا کی فوج کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں ہیئربینڈز کو درختوں کی شاخوں اور زمین پر پڑا دیکھا جا سکتا ہے۔

لیسلی کی نانی فاطمہ ویلنسیا نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کیمپ بنانے کے علاوہ لیسلی ’کو علم تھا کہ وہ کون سے پھل نہیں کھا سکتیں کیوں کہ جنگل میں بہت سے زہریلے پھل پائے جاتے ہیں۔ اسے پتہ تھا کہ چھوٹے بچے کی دیکھ بھال کیسی کی جاتی ہے۔‘

ویلنسیا نے مزید بتایا کہ لیسلی نے اس تجربے سے فائدہ اٹھایا جو انہیں اس وقت بہن بھائیوں کی دیکھ بھال سے حاصل ہوا جب ان کی والدہ کام پر ہوتی تھیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جنگل میں رہنے کے علم، طیارے کے ملبے سے مل جانے والی خوراک اور ویتوتو کے مقامی گروپ میں رہ کر پلنے بڑھنے کی بدولت بچوں کو اتنے طویل عرصے تک زندہ رہنے میں مدد ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویلنسیا نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ’لیسلی نے بہن بھائیوں کو آٹا، کساوا بریڈ اور اس جھاڑی کا پھل دیا جس کے بارے میں انہیں علم تھا کہ اسے کھانا ہو گا۔‘

کولمبیا کے جنوبی حصے کے علاقے واؤپیس میں، جہاں یہ بچے پلے بڑھے، گوانانو گروپ کے رہنما جان مورینو نے بتایا کہ ’بچوں کی پرورش ان کی نانی نے کی۔

’انہوں نے اس علم سے کام لیا جو انہوں نے برادری میں رہ کر سیکھا اور زندہ رہنے کے لیے اپنا آبائی علم استعمال کیا۔‘

بچوں کی تلاش کا کام اس وقت شروع ہوا جب تباہ ہونے والے طیارے کے ملبے سے ان کی لاشیں نہیں ملیں۔ طیارے کا ملبہ 15 اور 16 مئی کے درمیان ملا تھا۔

بعد ازاں علاقے کا علم رکھنے والے تقریباً 200 فوجیوں اور مقامی لوگوں کو جنگل کے 320 مربع کلو میٹر کے لگ بھگ علاقے میں بچوں کی تلاش کے لیے بھیجا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امدادی کارکن بعض اوقات 100 میٹر (300 فٹ) کی دوری پر بھی پہنچے لیکن طوفانوں، گھنے سبزے اور دلدلی زمین نے انہیں بچوں کے ساتھ رابطے سے روکا۔

کولمیبا کی فضائیہ نے خوراک کے پیکٹ اور 10 ہزار پمفلٹس بھی جنگل میں گرائے تھے، جن میں انہیں حوصلہ اور زندہ رہنے کے لیے مشورے دیے گئے تھے۔

کولمبیا کے صدر گستاوو پیترو کے ساتھ ہسپتال میں بچوں کی عیادت کرنے والے وزیر دفاع ایوان ولاسکے نے کہا کہ بچوں کی حالت بہتر ہو رہی ہے لیکن ابھی وہ ٹھوس خوراک نہیں کھا سکتے۔

سب سے چھوٹے دو بچوں جو اب پانچ اور ایک سال کے ہیں، نے اپنی سالگرہ کا دن جنگل میں گزارا، جہاں ان کی بڑی بہن لیسلی نے مشکل وقت میں بہن بھائیوں کی رہنمائی کی۔

ولاسکے نے کہا: ’ان (لیسلی) کا شکریہ۔ ان کی ہمت، رہنمائی، دیکھ بھال اور جنگل کے بارے میں معلومات کی بدولت دیگر تین بچوں کی جان بچ گئی۔‘ 

’معجزہ ہوگیا‘

بچوں کی تلاش کے آپریشن کی قیادت کرنے والے جنرل پیدرو سانچیز نے اس کا سہرا ریسکیو ٹیموں کی کوششوں میں شامل مقامی لوگوں کو دیا۔

جنرل سانچیز نے صحافیوں کو بتایا کہ ’بچے ہمیں مل گئے۔ معجزہ ہو گیا، معجزہ ہو گیا، معجرہ ہو گیا!‘ 

اتوار کو سرکاری نشریاتی چینل آر ٹی وی سی  پر انٹرویو میں مقامی ریسکیو ٹیم نے بچوں سے ملنے کے بعد کے لمحات کا ذکر کیا۔

سرچ اور ریسکیو ٹیم میں شامل نکولس آردونیز گومیز کا کہنا تھا کہ ’بڑی بہن لیسلی جس نے چھوٹی بہن کو ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا، دوڑ کر ہماری طرف آئی۔ لیسلی نے کہا کہ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔

’بچوں میں سے ایک زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ اٹھا اور مجھ سے کہا کہ میری والدہ مر چکی ہیں۔‘

آردونیز نے مزید کہا: ’ہم فوری طور پر مثبت الفاظ کے ساتھ آگے بڑھے اور ان سے کہا کہ ہم دوست ہیں اور ہمیں ان کے خاندان، والد اور چچا نے بھیجا ہے۔ ہم ان کے خاندان کے لوگ ہیں۔‘
 
کولمبیا کی فوج کے سربراہ ہیلدر ہیرالدو نے اپنی ٹویٹ کہا: ’وہ مقصد جو ناممکن دکھائی دے رہا تھا، حاصل کر لیا گیا۔‘

دوسری جانب صدر پیترو نے کہا کہ ’مقامی اور فوجی علم کے امتزاج‘ کی بدولت کامیابی ملی۔ اس طرح ’ایک نئے کولمبیا کی جانب ایک مختلف راستہ دکھایا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا