کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد میئر کا انتخاب سب سے بڑا امتحان ثابت ہو رہا ہے کیونکہ مسائل کے حل کی دعوے دار جماعت اسلامی اور صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی آمنے سامنے ہیں۔
میئر کراچی کا انتخاب 15 جون کو ہوگا، جہاں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کے درمیان مقابلہ ہے۔
دونوں طرف سے اکثریت کے دعوے کیے جا رہے ہیں، تاہم جتنے ووٹ میئر بننے کے لیے درکار ہیں وہ دونوں حریفوں کے پاس نہیں، اس لیے الحاق ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب میئر کے انتخاب سے پہلے امیدواروں کا ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس میں جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن نے پاکستان پیپلز پارٹی پر مینڈیٹ کی مبینہ چوری کا الزام لگایا تو مرتضیٰ وہاب نے اپنے حریف کو کونسل میں اکثریت ثابت کرنے کا مشورہ دیا۔
ان الزامات اور کھینچا تانی کے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے حافظ نعیم اور مرتضیٰ وہاب سے رابطہ کیا اور موجودہ صورت حال کے حوالے سے جاننا چاہا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پیپلز پارٹی پر ’کراچی کے مینڈیٹ پر قبضے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر روز چیئرمین لاپتہ ہو رہے ہیں۔ منتخب نمائندوں کی ایک تعداد سامنے آگئی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کے نمبر پورے نہیں، لہذا انہیں دعوؤں کے بجائے اصولی طور پر جمہوری رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
حافظ نعیم کا کہنا تھا: ’جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے نمبر جمع کیے جائیں تو 193 ووٹ بنتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی نے ان نمبرز کو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا جا رہا۔ پیپلز پارٹی تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مطلوبہ نمبر پورے نہیں کرسکی تو اب غلط اور من گھڑت خبریں پھیلا کر ابہام پیدا کرنا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم حیران ہیں کہ یہ کس طرح کا انتخاب ہے کہ جس میں ایک پارٹی کھلم کھلا عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، لوگوں کو اٹھا کر غائب کر رہی ہے اور کوئی ادارہ ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے میئر کراچی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب نے اپنی حریف جماعت کو ’قبضہ گروپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ پلوں اور کھمبوں پر قبضہ کر رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’جماعت اسلامی کے 130 رکن ہیں اور 155 رکن پاکستان پیپلز پارٹی کے ہیں۔‘
بقول مرتضیٰ وہاب: ’ہم نے شفافیت سے سارے کام کیے، ہم جماعت اسلامی سے پروپیگنڈا میں جیت نہیں سکتے۔ ہم نے ہارس ٹریڈنگ نہیں کی، کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوگی۔ شفافیت سے ووٹ ہوں گے۔‘
پیپلز پارٹی کے امیدوار نے مزید کہا کہ میئر کے الیکشن میں جماعت اسلامی اپنے ووٹ بھی مکمل نہیں کرسکے گی، 15 جون کو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ ’میئر کراچی پیپلز پارٹی کا جیالا ہی ہوگا۔‘
جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ اسے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے، جو حافظ نعیم الرحمٰن کو ملک کے سب سے بڑے شہر کا میئر بنانے کے لیے کافی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے میئرشپ کے لیے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب بھی اکثریت کے دعوے دار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب حالیہ چند دنوں کے دوران صورت حال نے پلٹا کھایا ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے کچھ اراکین نے حافظ نعیم الرحمٰن کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا ہے، جو قانوناً ان کے ووٹوں کے مسترد اور خود ان کے ڈی سیٹ ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ صورت حال جماعت اسلامی کے لیے تشویش ناک ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پی ٹی آئی کی ترجمان فلک الماس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے، جس میں واضح ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے میئر کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی ہر حال میں میئر کا الیکشن چوری کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے منتخب ارکان کو دباؤ میں لانے کے کوشش کی ہے اور منتخب ارکان کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے اغوا کیا جا رہا ہے۔‘
فردوس الماس کے مطابق پی ٹی آئی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پارٹی ہدایت پر تمام ارکان کو حافط نعیم الرحمٰن کو ووٹ دینا ہے، پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی اور جو رکن بھی پارٹی ہدایت کے بر خلاف ووٹ ڈالنے نہیں آئے گا تو کارروائی ہوگی۔‘