پشاور کی یونیورسٹی بک ایجنسی، جس نے ’کئی شخصیات کا کیریئر بنایا‘

بک سٹور کے مالک فضل اللہ کے مطابق 70 سال سے قائم یونیورسٹی بک ایجنسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام بڑی ادبی شخصیات کی تصانیف کی پہلی اشاعت انہوں نے کی، جن میں غنی خان کا نام سرفہرست ہے۔

1952 میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ’مکتبہ سرحد‘ کے نام سے کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی گئی، جس کا نام بعد ازاں تبدیل کر کے ’یونیورسٹی بک ایجنسی‘ رکھ دیا گیا۔

70 سال پرانی ’یونیورسٹی بک ایجنسی‘ کے آس پاس قائم کئی عمارتیں قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہوئی تھیں جو آج بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہیں۔ ان ہی عمارتوں کے درمیان دور سے ہی جلی حروف میں ’یونیورسٹی بک ایجنسی‘ لکھا ہوا نظر آ جاتا ہے۔

اس کتاب گھر کو بنانے کا مقصد اس کے مالک فضل اللہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد مولانا فضل منان نے صوبے بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کتابوں کی یہ دکان کھولی۔ ان کا مقصد طلبہ کو بروقت نصابی اور غیر نصابی کتب کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ ’اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ کئی کامیاب شخصیات کا کہنا ہے کہ ان کی اپنے کیریئر میں کامیابی کا سہرا یونیورسٹی بک ایجنسی کو جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب ہمارے سٹور کا نام تبدیل ہوا تو دوبارہ افتتاح کے موقعے پر پشاور یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر چوہدری محمد علی نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ طلبہ کے کیریئر میں پشاور یونیورسٹی کا کردار زیادہ ہے یا یونیورسٹی بک ایجنسی کا۔‘

فضل اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بک ایجنسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی تقریباً تمام بڑی ادبی شخصیات کی تصانیف کی پہلی اشاعت انہوں نے کی، جن میں غنی خان کا نام سرفہرست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور میں بسنے والی کئی بڑی ادبی شخصیات کی اس سٹور میں نشست ہوا کرتی تھی۔ آج وہ رونق باقی نہیں رہی کیونکہ وہ لوگ رہے، نہ کتاب سے عوام کا وہ رشتہ، تاہم آج بھی ادب پر تحقیق کرنے والوں کا پہلا انتخاب یہ سٹور ہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فضل اللہ نے مزید بتایا کہ ان کی بک ایجنسی کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی، جس زمانے میں کتاب تک رسائی مشکل تھی۔

’50 کی دہائی میں سفر کرنا آسان نہیں تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر یا دوسرے صوبے پہنچنے کے لیے کئی سفری صعوبتوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ ایسے وقتوں میں تمام کتاب گھروں نے جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے۔ اب تو انٹرنیٹ اور جدید سفری سہولیات نے سب آسان کر دیا ہے، اس لیے اب ہمارا بھی وہ کردار نہیں رہا۔‘

جب فضل اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ پشاور میں کتابوں کے کئی سٹور بند ہو جانے کے باوجود آج 70 سال بعد بھی ان کا سٹور اسی آب و تاب سے قائم ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ دراصل جس مقصد سے اس بک سٹور کا آغاز ہوا تھا وہ تعلیم کا فروغ تھا، اسی مقصد نے آج بھی اس بک سٹور کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس