ہمالیہ کی ترائیوں اور برف سے ڈھکی ڈھلوانوں پر بھکشو، سادھو اور جوگیوں کی دنیا تیاگ کر کے ننگے بدن چلہ کشی اور کشٹ اٹھانے کی کہانیاں تو کئی لوگوں نے پڑھی اور تصاویر دیکھی ہیں مگر 8611 میٹر بلند کے ٹو کی چوٹی پر ننگے بدن گیان کرنے والا صرف سدپارہ کا محمد مراد ہی ہے۔
محمد مراد سدپارہ کوئی عمر رسیدہ سادھو نہیں بلکہ ان کی عمر صرف 33 برس ہے۔
صرف کے ٹو ہی نہیں، وہ 8080 میٹر بلند گیشربروم -1، 8051 میٹر بلند براڈ پیک اور 8036 میٹر اونچی گیشربروم -2 پر بھی قدم رکھ چکے ہیں۔
کسی اور ملک میں ہوتے تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، سلیبرٹی کا درجہ حاصل ہوتا، مگر آج کل محمد مراد سکردو میں اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ٹریکٹر میں پتھر لکڑی ڈھوتے ہیں اور دن بھر گرد و غبار سے اٹے رہتے ہیں۔
ان کو دیکھتے ہی صاف اور سرخ و سفید رنگت کی بنا پر تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کوئی انگریز ہیں، جس نے شوقیہ طور پر قمیص شلوار پہن رکھی ہے۔
محمد مراد سد پارہ کے سب سے بڑے گاؤں، جسے بڑو گروم (بڑا گاؤں) کہا جاتا ہے، کے رہائشی ہیں۔ ان کے خاندان شیلے کہلاتے ہیں اور اسی نام کے بنیال گلتری میں بھی خاندان آباد ہیں جو اب سکردو منتقل ہو گئے ہیں۔ سد پارہ کے نوجوان کوہ پیمائی کے لیے مستند مانے جاتے ہیں اور کیوں نہ ہوں، اب تک یہاں کے پانچ نوجوانوں نے کے ٹو تسخیر کر لی ہے جبکہ متعدد نے مشہ بروم، گیشربروم، براڈ پیک سمیت دیگر کئی پہاڑ سر کر رکھے ہیں۔
محمد علی سدپارہ کا نام تو کوہ پیمائی کی دنیا میں امر ہو گیا ہے، انہی کے فرزند ارجمند ساجد سدپارہ ان دنوں ایورسٹ اور انا پورنا جیسے آٹھ ہزار فٹ سے زائد اونچے پہاڑ بغیر آکسیجن کے، سر کر کے عالمی سرخیوں میں ہیں۔
محمد مراد سد پارہ نے بھی اوائل عمری میں گھر بار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور محنت مزدوری کے لیے گھر سے باہر قدم رکھا۔ گاؤں میں زراعت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ سال بھر کا خرچہ برداشت کیا جا سکے لہٰذا گھر داری کے لیے مشقت مقدر بن گیا۔
گاؤں کے نوجوان یا تو پورٹر بن کر کوہ پیماؤں کے ہمراہ بلند پہاڑوں کی راہ لیتے تھے یا سیاچن اور دیگر دفاعی محاذوں پر ٹھیکے داروں کے قلی بن کر آرمی کے لیے راشن اور دیگر سامان ڈھونے کا کام کرتے تھے۔
محمد مراد نے بھی راشن ڈھلائی کا کام کیا، وہ سیاچن کے گیانگ، گیاری اور چولونگ سیکٹر میں سخت محنت سے پسینے میں شرابور ہوئے تو کبھی فرانو اور چھوربٹ سیکٹر میں وزن اٹھا کر بلند پوسٹوں کی طرف بڑھنے کے لیے جان کا زور لگانے لگے اور جب کبھی کام نہ ملتا تو ٹریکٹر ڈرائیور بن کر پتھر، مٹی، ریت، لکڑی اور بجری لوگوں کے کھیت کھلیان، مکانوں اور تعمیراتی سائٹس تک پہنچانے میں مگن رہتے ہیں۔
کم عمری میں بار برداری کے کام کی وجہ سے ان کی پشت اور ہاتھ کی جلد کھردری اور سخت ہو گئی ہے۔ منیر نیازی کا شعر کیا خوب صورتی سے محمد مراد جیسوں کی کہانی بیان کرتا ہے؎
تیری چاہت کا مختصر موسم
رزق کی جستجو میں بیت گیا
محمد مراد نے صرف راشن ڈھلائی کا کام ہی نہیں کیا بلکہ مختلف پکٹوں اور پوسٹوں کے قیام میں بھی پاکستانی فوج کے لیے جانفشانی سے مدد کی۔ وہ سردیوں میں برف سے ڈھکے یخ بستہ پہاڑوں کی نوکیلی چوٹیوں پر بنائی گئی پوسٹوں تک رسیاں لگانے اور ریسکیو کے کام میں بھی آگے آگے رہے ہیں۔
یہ ہنر کام آ گیا۔ انہوں نے ناردرن انفنٹری کے کسی یونٹ آفیسر کو بلندیوں سے اترنے میں مدد کی تھی، جس کا صلہ انہیں کوہ پیمائی کی طرف لے جانے میں مدد کر کے دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ 2016 میں گیشربروم-1 کو سر کرنے ایک کورین ٹیم سکردو پہنچی، جس کا رابطہ افسر اتفاق سے وہی آرمی افسر تھے، جن کی محمد مراد نے سیاچن کی بلندی سے اترنے میں مدد کی تھی۔ انہوں نے محمد مراد کو ڈھونڈ نکالا اور کورین ٹیم کے ساتھ نتھی کر دیا۔
سدپارہ گاؤں کے پیشرو کوہ پیماؤں کی جرات سے لبریز کہانیاں ان کے دل و دماغ میں پہلے سے ہی رچ بس گئی تھیں، ساتھ ہی ان کی ذاتی محنت رنگ لائی اور یوں پہلی ہی مہم میں انہوں نے گیشربروم -1 سر کر لی۔ اس مہم کی خاص بات یہ تھی کہ بعض کورین ارکان ہاتھوں سے معذور تھے، جن کے لیے محمد مراد نے تکنیکی معاونت فراہم کی۔
2017 میں محمد مراد کو گیشربروم -2 سر کرنے کا موقع ملا مگر کیمپ -4 میں موسم کی شدید خرابی کے باعث ٹیم آگے بڑھ نہیں پائی اور کوہ پیما پہاڑ سر نہیں کر سکے۔ انہوں نے بڑی جان لڑائی مگر قراقرم کے بلند پہاڑوں پر چلنے والی ہوا اور برف کے طوفان انسانوں کی مرضی کہاں چلنے دیتے ہیں۔ ٹیم کو مجبوراً بیس کیمپ واپس اترنا پڑا اور دکھی دل کے ساتھ سکردو لوٹے۔
محمد مراد کے دل میں یہ حسرت شدت اختیار کرتی گئی کہ کب گیشربروم -2 کو سر کرنے کا دوبارہ موقع ملے گا۔ دل میں سچی لگن ہو اور شوق جنون اختیار کر جائے تو قدرت بھی مواقع فراہم کرتی ہے، یوں 2018 میں یہ موقع پھر ہاتھ آیا۔ انگلینڈ کی ایک کوہ پیما ٹیم کے ساتھ بلترو ریجن جانا ہوا اور گیشربروم -2 کی چوٹی پر قدم جما لیے۔
اب محمد مراد کا سفر رکننے والا نہیں تھا، ان کے من میں صرف بلندیاں تھیں اور پاؤں میں آبلہ پائی کا جنون، جو انہیں نچلا بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔
2019 میں ان کی مہارت اور جواں مردی کو آزمانے کا ایک اور موقع ملا، ہوا ہوں کہ جب وہ ہوشے گاؤں کے محمد بشیر اور اپنی کوہ پیما ٹیم کے ساتھ براڈ پیک سر کرنے کی مہم پر تھے تو وہاں کیمپ -4 میں پہلے سے موجود ایک اور کوہ پیمائی کی ٹیم کو حادثہ پیش آیا۔
اب محمد مراد کو اپنی ٹیم کی مدد سے اس متاثرہ ٹیم کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن کرنا پڑا، یوں وہ 47 افراد کو واپس بیس کیمپ پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مہارت اور جرات کی شاندار مثال تھی۔ براڈ پیک سر کرنے کے لیے محمد مراد کو ایک سال مزید انتظار کرنا پڑا اور بالآخر ان کے دوست پیٹر اور پول جن کا تعلق انگلستان سے تھا، 2020 میں پھر براڈ پیک سر کرنے پہنچے اور محمد مراد اس مہم کے سرخیل تھے۔
اس بار کوئی حادثہ پیش نہیں آیا، نہ ہی موسم کی چیرہ دستی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے کامیابی سے براڈ پیک کی چوٹی پر قدم رکھ دیے۔
کرونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کی صحت اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، وہیں پر یہ موذی وائرس کوہ پیمائی کی دنیا کو بھی اجاڑ گیا۔ یوں 2021 میں کوہ قراقرم اور کوہ ہمالیہ کی طرف کوہ پیما نہیں آ سکے۔
محمد مراد بھی دبک کر بیٹھ گئے۔ قدرت نے رحم کھایا، وہ خود اور ان کے خاندان کے دیگر افراد محفوظ رہے۔ دل میں بےکلی سی چھائی رہی، کہاں سرپھرے کنج قفس میں قید رہ سکتے تھے، ان کا جی کرتا تھا کہ بھاگ کر پہاڑوں کی راہ لیں مگر اس جان لیوا وائرس نے تو سارے راستے مسدود کر دیے تھے۔
حادثات، مسائل اور آزمائشیں دکھ دیتے ہیں، زخم ملتے ہیں اور نقصان کچھ عرصے کے لیے زندگی کی حرکت ضرور روک دیتا ہے مگر حوصلہ ہار نہیں مانتا، نہ ہی زندگی کو ثبات ہے۔ کرونا چلا گیا، رونقیں پھر لوٹ آئیں تو کوہ پیماؤں کا جنون انہیں پھر بلندیوں کی طرف اکسانے لگا۔
2022 کا سال محمد مراد کے لیے بہت خاص ہے۔ انہوں نے گیشر بروم-1، گیشر بروم -2 اور براڈ پیک ضرور سر کر لی تھیں، وہ سیاچن کی ہولناک سردی اور برفانی چٹانوں سے پنجہ آزمائی کر چکے تھے اور زندگی کی سختیوں سے آنکھ ملانے کے بھی عادی ہو چکے تھے، مگر دور کہیں کے ٹو اب بھی خندہ زن تھی۔
محمد مراد جب بھی گیشر بروم-1، گیشر بروم-2 اور براڈ پیک جاتے ہوئے کانکورڈیا سے گزرتے تھے، تو ترچھی نگاہوں سے کے ٹو کی طرف دیکھتے اور دل میں ارادے باندھتے تھے کہ کب موقع ملے کہ اس پہاڑ کے ساتھ دو دو ہاتھ ہوں۔
یوں 2022 میں ان کے انگریز دوست پول اور پیٹر کے ٹو سر کرنے آئے اور محمد مراد ان کا منظور نظر تھا۔ ان کی دلی مراد بر آئی اور وہ ٹیم کے ساتھ کے ٹو بیس کیمپ پہنچے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کے ٹو سر کرنے کے لیے عموماً چار کیمپ لگائے جاتے ہیں اور کیمپ -4 سے آخری یلغار کی جاتی ہے۔ میں نے جب محمد مراد سے کے ٹو سر کرنے کی مہم جاننے کے لیے حال ہی میں ان سے ملاقات کی تو انہوں نے دلچسپ کہانی سنائی۔
محمد مراد کا کہنا تھا کہ ’جب میری ٹیم کیمپ -1 سے کیمپ -4 تک جان لڑا کر پہنچی تو وہاں پر نیپالی شرپاؤں کے ساتھ ایک اور مہم جو ٹیم موجود تھی۔ ان دونوں ٹیموں نے کیمپ -4 سے باٹل نیک کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کیا۔ ایک مرحلے میں جب محمد مراد کی ٹیم آگے نکلنے لگی تو نیپالی شرپاؤں نے انہیں تضحیک آمیز انداز میں روکنے کی کوشش کی اور توتکار بھی ہوئی۔
باٹل نیک سے آگے ڈیتھ زون کے قریب ان کی نیپالی شرپاؤں کے ساتھ پھر ملاقات ہوئی جو وہاں بد حال پڑے ہوئے تھے۔ محمد مراد اپنی ٹیم کو لے کر آگے بڑھے اور کے ٹو مسخر کر لیا۔
جب نیپالی شرپا اپنی ٹیم کو لے کر چوٹی پر پہنچے تو محمد مراد وہاں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے پاکستانی پرچم نکالا اور فرط جذبات میں نعرہ بلند کیا، کوٹ اور شرٹ اتاری اور 8611 میٹر بلند چوٹی پر ننگے بدن جوگی بن گئے۔ یہ 24 جولائی 2022 کی بات تھی۔
کوہ قراقرم، کوہ ہندوکش اور کوہ ہمالیہ کی تاریخ میں ایسی مثال موجود نہیں۔
محمد مراد اب ٹریکٹر چلا رہے ہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ ان کی علاقائی اور ملکی سطح پر کوئی پذیرائی کی گئی اور نہ ہی ان کے ہنر سے کوئی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ اس میدان میں محمد مراد اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے اردگرد ان جیسے بہت سے نابغے بکھرے ہوئے ہیں، جن کی معاشرے کو کوئی قدر نہیں۔