چند روز قبل لاہور کے علاقے رائے ونڈ میں ایک مدرسے کے معلم کی جانب سے آٹھ سالہ بچے ثمر سلیم کو مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ مقتول بچے کے والد محمد سلیم کا کہنا ہے کہ ’ثمر حافظ قرآن بن کر دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا‘۔
لاہور کے علاقے رائے ونڈ میں مدرسہ دارالقرآن گلبرگ کے آٹھ سالہ طالب علم ثمر سلیم سے معلم قاری محمد رضوان کی جانب سے مبینہ ریپ کے بعد چھت سے پھینکنے کا واقعہ پیش آیا۔
متاثرہ بچہ دس دن تک چلڈرن ہسپتال میں زیر علاج رہنے کی بعد گذشتہ روز منگل کی شام دم توڑ گیا۔ بچے سے مبینہ زیادتی اور زخمی کرنے کا مقدمہ رائے ونڈ پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بچے کی موت کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات بھی شامل کی جائیں گی۔
ثمر سلیم نامی بچے کے لواحقین نے اپیل کی ہے کہ انہیں انصاف ملنا چاہیے اور بچے کے قتل میں ملوث ملزم کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کے مطابق ’جنسی ہراسانی کے واقعات مدارس کے علاوہ دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی پیش آتے ہیں۔ یہ ہمارا معاشرتی المیہ بن چکا ہے، لہذا اس کے تدارک کو یقینی بنانے کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔‘
واقعہ کیسے پیش آیا؟
تھانہ رائے ونڈ میں درج مقدمے میں متاثرہ بچے ثمر کے والد محمد سلیم کا موقف ہے کہ ’میرا حقیقی بیٹا ثمر سلیم مدرسہ دارالقرآن گلبرگ رائے ونڈ میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ان کے معلم قاری محمد رضوان نے سات جون کی رات جب وہ کمرے میں سویا ہوا تھا تو اسے زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘
’اس دوران مزاحمت کرنے پر بچے پر تشدد کر کے بازو بھی توڑ دیا اور جرم چھپانے کے لیے انہوں نے بچے کو چھت کی سیڑھیوں سے دھکا دے کر گرا دیا جس سے اس کے سر میں شدید چوٹ آئی۔‘
محمد سلیم کے مطابق ’واقعے کے اگلے روز بے ہوشی کی حالت میں بچے کو انڈس ہسپتال رائے ونڈ پہنچایا گیا اور پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئی تھی۔ ہسپتال انتظامیہ نے بچے کو چلڈرن ہسپتال لاہور منتقل کرنے کا مشورہ دیا تو وہاں لے گئے۔ قاری محمد رضوان نے بچے سے جنسی زیادتی کی ہے اور تشدد کر کے مارنے کی کوشش کی اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تفتیشی افسر سہیل عمران کے مطابق ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے پہلے ہی قاری رضوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کیس کی تفتیش بھی جاری ہے۔ ’پہلے بچے کو ریپ کے بعد زخمی کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن اب بچہ فوت ہوچکا ہے تو اب مدعی کی جانب سے درخواست پر قتل کی دفعات شامل کی جائیں گی۔‘
بچے کے والد مدعی مقدمہ محمد سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے اپنے بیٹے کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں داخل کرایا تھا۔ ثمر وہیں رہتا تھا، چھٹیوں میں گھر آتا تھا کیونکہ ہمارا گاؤں رائے ونڈ شہر سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔‘
محمد سلیم کے بقول ’مدرسہ انتظامیہ کی جانب سے تو کوئی بات نہیں کی گئی البتہ ملزم قاری رضوان کے وارثوں نے سرگودھا سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ہم سے صلح کی درخواست کی اور پانچ لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی مگر ہم نے ٹھکرا دی اور جواب دیا کہ اب ہم صرف حکومت سے اپیل کریں گے کہ ہمیں انصاف دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی، ثمر سب سے بڑا تھا جب اس کی عمر آٹھ سال ہوئی تو اس نے خواہش کی کہ وہ سکول نہیں مدرسے میں تعلیم حاصل کر کے حافظ قرآن بن کر دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے اسے مدرسے میں داخل کرا دیا۔‘
جنسی ہراسانی کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
متاثرہ بچے کے چچا محمد عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے ان کے بھتیجے ثمر کے ساتھ ہوا ہے اور انہوں نے اپنے پھول کو منوں مٹی کے سپرد کر دیا، حکومت کو چاہیے کہ ایسے واقعات روکنے کے اقدامات کرے تاکہ دوسرے بچوں کو ساتھ ایسا نہ ہوسکے۔‘
عرفان کے بقول ’مدارس میں بچوں کو چھوڑ کر والدین تو مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہاں مذہبی تعلیم دی جارہی ہے اور بچے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ لیکن اگر بچوں کے اساتذہ ہی ایسا ظلم کرتے ہوں تو بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رائے ونڈ میں بچے سے ہونے والی ریپ اور تشدد کا واقعہ ان کے علم میں آیا ہے جو انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت فعل ہے۔ لیکن جنسی ہراسانی یا طلبہ پر تشدد صرف مدارس نہیں بلکہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ہونے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔‘
قبلہ ایاز کے مطابق ’یہ مسئلہ صرف مدارس کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی المیہ بنتا جا رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ مدارس یا دیگر تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے یہ کام ہمارا تو نہیں لیکن ہم اس بارے میں ہر طرح تعاون کو تیار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تمام مدارس کے متولی صاحبان کو خطوط لکھے کہ مدارس میں پڑھانے والے معلمین کی تربیت کی جائے ان کو اس بارے میں آگاہی فراہم کی جائے کہ مدارس میں جنسی ہراسانی کے واقعات نہ ہوں۔ اس معاملے میں علما کی جانب سے بھی اپنے اپنے مسلک کے مدارس میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس میں زیادہ تر مختلف علما کرام کا اثر و رسوخ زیادہ ہوتا ہے۔‘
قبلہ ایاز نے کہا کہ ’جس مدرسے میں بھی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے اس پر جو بھی قانونی کارروائی کی جاتی ہے وہ قانون کے مطابق ہوتی ہے یا فریقین کے درمیان طے ہوتی ہے۔ اس معاملہ میں ہماری طرف سے کسی کی حمایت نہیں کی جاتی۔‘