وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے پیرس میں ملاقات میں یقین دلایا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے طے شدہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔
شہباز شریف نیو گلوبل فائنانسگ پیکٹ سمٹ میں شرکت کے لیے فرانس میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری پروگراموں اور تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق شہباز شریف نے معاشی ترقی اور استحکام کے لیے حکومت کے اقدامات سے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کو آگاہ کیا۔
بیان کے مطابق: ’وزیراعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مختص فنڈز جلد از جلد جاری کر دیے جائیں گے، جس سے پاکستان کی معاشی استحکام کے لیے جاری کوششوں کو تقویت ملے گی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔‘
شہباز شریف نے ملاقات میں کہا کہ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت نویں جائزے کے لیے پاکستان نے پیشگی اقدامات مکمل کر لیے ہیں۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی قسط کے اجرا پر معاہدہ گذشتہ نومبر سے تاخیر کا شکار ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر نے بیل آؤٹ پیکج کے تحت قسط کے اجرا سے متعلق جائزہ لینے کے جاری عمل پر اپنے ادارے کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔
اس سے قبل 27 مئی کو پاکستانی وزیراعظم نے ٹیلی فونک رابطے میں کرسٹالینا جارجیوا کو پاکستان کی معاشی صورت حال سے آگاہ کیا تھا۔
گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 29 جون تک کے اجلاسوں کا شیڈول جاری کیا تھا لیکن پاکستان کا معاملہ کسی بھی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام 30 جون کو 2023 کو ختم ہونے جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کو گذشتہ سال نومبر میں 1.1 ارب ڈالر قرض کی قسط ملنے کی امید تھی لیکن آئی ایم ایف نے مزید ادائیگی سے قبل کئی شرائط پر اصرار کیا۔
پاکستان کے پاس 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے اختتام سے پہلے آئی ایم ایف بورڈ کے صرف ایک آخری جائزے کا وقت ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ادارہ برائے پائیدار ترقی کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیراعظم پہلے بھی آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کو موقف پیش کر چکے ہیں، اب ضرورت سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو امریکہ کے علاوہ مغرب کے ان ممالک کے ساتھ بھی سفارتی روابط کو بڑھانا ہو گا جن کا آئی ایف ایم میں شیئر زیادہ ہے۔‘
رواں ماہ ہی پاکستان نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا ہے، لیکن آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے وفاقی بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے ایک بیان میں کہا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ’ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کا موقع گنوا دیا ہے۔‘
بجٹ پیش کرنے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تجاویز میں بعض اقدامات آئی ایم ایف کی سربراہ کی جانب سے عالمی ادارے کے فنڈز کی منظوری سے متعلق زبانی یقین دہانی کے بعد کیے ہیں۔