روس کی نجی فوج ویگنر کے سربراہ ایوگنی پریگوزن جو کسی زمانے میں چھوٹے سے تاجر ہوا کرتے تھے، انہیں طاقتور روسی صدر ولادی میر پوتن کی سرپرستی سے فائدہ بھی ملا، جبکہ وہ یوکرین میں روس کی جنگ کے بعد عالمی سطح پر نمایاں کردار کے طور پر ابھرے۔
اجرت پر لڑنے والی فوج کے سربراہ کے طور پر پریگوزن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یوکرین میں روسی فوج کی بہت سی مشکل ترین لڑائیاں لڑیں۔ اب 62 سالہ پریگوزن اپنا سب سے خطرناک کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ملک کی فوجی قیادت کے خلاف کھلی بغاوت کی ترغیب دے رہے ہیں۔
کریملن کے اتحادی نجی فوج ویگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن نے جمعے کو روسی وزیر دفاع کو معزول کرنے کے لیے مسلح بغاوت پر زور دیا، جب روس کے جنگ کے طریقہ کار پر کئی ماہ سے جاری شدید تنقید بڑھ چکی ہے۔ روسی سکیورٹی سروسز نے فوری طور پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پریگوزن کے خلاف مجرمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق کریملن نے پریگوزن کی دھمکی کو کتنی سنجیدگی سے لیا، اس بات کی علامت کے طور پر فسادات پر قابو پانے کے لیے مخصوص پولیس اور نیشنل گارڈ نے ماسکو میں سرکاری اداروں اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے سمیت اہم تنصیبات کے حفاظتی انتظامات سخت کر دیے۔
مجرمانہ ریکارڈ رکھنے، ہاٹ ڈاگ فروخت کرنے والے اور پوتن کے دیرینہ ساتھی رہنے والے پریگوزن نے روسیوں پر زور دیا کہ وہ ان کے ’انصاف کے لیے مارچ‘ میں شامل ہو جائیں۔
پوتن کے باورچی
پریگوزن اور پوتن کے درمیان پرانا تعلق ہے۔ دونوں لینن گراڈ میں پیدا ہوئے جو اب سینٹ پیٹرزبرگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سوویت یونین کے آخری سالوں میں پریگوزن نے جیل میں وقت گزارا۔ وہ تسلیم کرتے ہیں وہ 10 سال تک جیل میں رہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا جرم کیا تھا؟
بعد ازاں وہ ہاٹ ڈاگ سٹینڈ اور پھر خوشنما ریستورانوں کے مالک رہے جس نے پوتن کو متوجہ کیا۔ اپنی پہلی مدت صدارت میں پوتن اس وقت کے فرانسیسی صدر ژاک شیراک کو پریگوزن کے بہت سے ریستورانوں میں سے ایک میں کھانے کے لیے لے گئے۔
پریگوزن نے 2011 میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ولادی میر پوتن نے دیکھا کہ میں ایک سٹینڈ سے شروع کر کے کسی طرح کاروبار تک پہنچا۔ انہوں نے دیکھا کہ میں معزز مہمانوں کی خدمت کو برا نہیں سمجھتا کیوں کہ وہ میرے مہمان تھے۔‘
پریگوزن کا کاروبار کیٹرنگ اور سکول لنچ فراہم کرنے تک نمایاں طور پر پھیل گئے۔ 2010 میں پوتن نے فیکٹری کھولنے میں پریگوزن کی مدد کی۔ یہ کارخانہ ایک سرکاری بینک کے فراخ دلانہ قرضوں سے کھولا گیا۔ صرف ماسکو میں ان کی کنکورڈ نامی کمپنی نے سرکاری سکولوں میں کھانا فراہم کرنے کے معاہدے سے لاکھوں پاؤنڈز کمائے۔ پریگوزن نے کئی سال تک کریملن کی تقریبات کے لیے کیٹرنگ کا بھی اہتمام کیا جس کی وجہ سے انہیں ’پوتن کا باورچی‘ کا خطاب ملا۔ انہوں نے روسی فوج کو کیٹرنگ اور دوسری بنیادی خدمات فراہم کیں۔
2017 میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی شخصیت اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والے الیکسی نوالنی نے وزارت دفاع کے تقریباً 30 کروڑ پاؤنڈ کے معاہدوں میں بولی دینے پر پریگوزن کی کمپنیوں پر مسابقت کے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
فوجی تعلق
پریگوزن، ویگنر گروپ کے بھی مالک ہیں جو کریملن کی اتحادی نجی فوج ہے۔ ویگنر دنیا بھر میں شورش زدہ علاقوں میں روسی اثر و رسوخ بڑھانے کی پوتن کی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کرتی آئی ہے۔
امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور دیگر کا کہنا ہے کہ روسی نجی فوج خاص طور پر افریقہ بھر میں تنازعات میں ملوث ہے۔ ویگنر کے جنگجو مبینہ طور پر پرکشش ادائیگیوں کے عوض قومی رہنماؤں یا جنگجو سرداروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان ادائیگیوں میں اکثر سونے یا دیگر قدرتی وسائل میں حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ روس یوکرین میں اپنی جنگ میں مدد کے لیے افریقہ میں ویگنر کی سرگرمیوں سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہو۔
یوکرین میں پریگوزن کے کرائے کے فوجی جنگ میں ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف لڑائی میں روسی فوج کے شانہ بشانہ پر لڑ رہے ہیں۔
اس میں ویگنر کے جنگجوؤں کا باخموت پر قبضہ بھی شامل ہے۔ وہ شہر جہاں سب سے زیادہ خونریز اور طویل ترین لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ گذشتہ مہینے تک ویگنر گروپ اور روسی افواج نے باخموت کے بظاہر بڑے حصے پر قبضہ کر لیا جو انسانی جانوں شکل میں قیمت کے باوجود روس کے لیے سٹریٹیجک لحاظ سے معمولی اہمیت کی حامل فتح تھی۔ امریکہ کا اندازہ ہے کہ دسمبر سے اب تک یوکرین میں جان سے جانے والے 20000 روسی فوجیوں میں سے نصف باخموت میں ویگنر کے جنگجو تھے۔ اجرت پر ملنے والے ویگنر کے فوجیوں میں روس کی جیلوں سے بھرتی کیے گئے قیدی بھی شامل ہیں۔
روس کے جرنیلوں پر غصہ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان کی فورسز یوکرین میں لڑیں اور ماری گئیں تو پریگوزن نے روس کے اعلیٰ فوجی افسروں پر غصہ نکالا۔ گذشتہ ماہ اپنی کی ٹیم کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو میں پریگوزن لاشوں کی قطاروں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے جو ان کے بقول ویگنر جنگجوؤں کی تھیں۔ انہوں نے روس کی باقاعدہ فوج پر نااہلی کا الزام لگایا اور کہا کہ ان فوجوں کے پاس لڑنے درکار ہتھیار اور گولہ بارود کی شدید کمی ہے۔
پریگوزن کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی کے باپ اور کسی کے بیٹے ہیں۔
’وہ گھٹیا لوگ جو ہمیں گولہ بارود فراہم نہیں کر رہے وہ جہنم میں سڑیں گے۔‘
امریکہ میں ’برا کردار‘
قبل ازیں پریگوزن نے امریکہ میں بہت محدود توجہ حاصل کی جب ان پر اور ایک درجن دیگر روسی شہریوں اور تین روسی کمپنیوں پر خفیہ سوشل میڈیا مہم چلانے کا الزام عائد کیا گیا جس کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016 کے انتخابی فتح سے قبل اختلاف کو ہوا دینا تھا۔
امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت کی خصوصی مشیر رابرٹ مولر کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر ان سب پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ امریکی محکمہ خزانہ نے پریگوزن اور ان کے ساتھیوں پر مبینہ انتخابی مداخلت اور پریگوزن کے ویگنر گروپ کی قیادت کرنے پر کئی بار پابندیاں لگائیں۔
2018 میں فرد جرم کے بعد خبر رساں ادارے آر آئی اے نووستی نے پریگوزن کے حوالے سے واضح طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکی بہت سادہ لوح ہیں۔ وہ، وہ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتا ہوں۔ میں بالکل پریشان نہیں ہوں کہ میں اس فہرست میں شامل ہوں۔ اگر وہ شیطان کو دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں دیکھنے دیں۔‘
بائیڈن کے وائٹ ہاؤس نے انہیں ’مشہور برا کردار‘کہا اور محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ پریگوزن کا ’جرات مندانہ اعتراف، اگر کچھ ہے تو، صرف اس استثنیٰ کا مظہر معلوم ہوتا ہے جس سے صدر پوتن اور کریملن کی قیادت میں ہوشیار اور قریبی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘
پوتن کے ردعمل سے بچ جانا
پریگوزن یوکرین میں روس کی روایتی فوج کی طرف سے لڑائی کے انداز کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرنا شروع کر دیا تب انہوں نے روسی جارحیت کے لیے بظاہر ناگزیر کردار ادا کرنا جاری رکھا اور پوتن کے جرنیلوں پر تنقید پر پوتن کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی گئی۔
بعض اوقات ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ پوتن پر پریگوزن کا اثر بڑھ رہا ہے اور وہ ایک نمایاں سیاسی عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں نے پوتن پر ان کے اثر و رسوخ کا غلط اندازہ لگانے کے خلاف خبردار کیا۔
اپنی پوڈ کاسٹ ’اِن ماسکوز شیڈوز ‘ میں روسی سلامتی امور کے ماہر مارک گیلیوٹی جن کا تعلق یونیورسٹی کالج، لندن کے ساتھ ہے، نے کہا کہ ’(پریگوزن) پوتن کے قریبی لوگوں میں ایک بااعتماد ساتھی نہیں ہیں۔ ‘
گیلیوٹی کے بقول: ’پریگوزن وہی کرتے ہیں جو کریملن چاہتا ہے اور اس عمل میں اپنے لیے بہت اچھا کرتے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ وہ خاندان کا حصہ ہونے کی بجائے عملے کا حصہ ہیں۔‘