امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق ’روسی صدر ولادی میر پوتن نے واضح طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کا ان کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ درست تھا۔‘
روئٹرز کے مطابق آئی سی سی نے اس سے قبل جمعے کے روز پوتن کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا کہ ان پر بچوں کی غیر قانونی ملک بدری اور یوکرین سے لوگوں کی روس غیر قانونی منتقلی سمیت سنجیدہ جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔
’انہوں نے واضح طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔‘ بائیڈن نے پوتن کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا۔
’ٹھیک ہے، میرے خیال میں یہ جائز ہے۔‘ بائیڈن نے وارنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا۔ ’اسے بین الاقوامی سطح پر ہم نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت مضبوط نکتہ بناتا ہے۔‘
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے ایک ای میل بیان میں کہا کہ امریکہ نے داخلی طور پر بھی یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور امریکہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے احتساب کی حمایت کرتا ہے۔
بین الاقوامی عدالت برائے جنگی جرائم (آئی سی سی) نے جمعے کو روسی صدر ولادی میر پوتن کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اعلان کیا۔
ہیگ میں قائم آئی سی سی کے مطابق اسی طرح کے الزامات کے تحت روس کی صدارتی کمشنر برائے بچوں کے حقوق ماریا لیووا بیلووا کے خلاف بھی وارنٹ جاری کیے ہیں۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر پیوٹن عدالت کے 120 سے زائد رکن ممالک میں سے کسی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ گرفتاری کے ذمہ دار ہیں۔
آئی سی سی کے صدر پیوٹر ہوفمانسکی نے کہا کہ وارنٹ پر عمل درآمد بین الاقوامی تعاون پر منحصر ہے۔
اے ایف پی کے مطابق روس نے ان احکامات کو مسترد کر دیا۔ روس آئی سی سی کا فریق نہیں ہے اس لیے یہ واضح نہیں تھا کہ آیا پوتن کبھی کٹہرے میں کھڑا ہو سکتے ہیں؟
جنگ زدہ یوکرین نے آئی سی سی کے اعلان کا خیرمقدم کیا، صدر ولادی میر زیلنسکی نے اس ’تاریخی فیصلے‘ کو سراہا۔
2002 میں قائم شدہ آئی سی سی ’دنیا کے بدترین جرائم کے لیے آخری حربے کی عدالت ہے۔‘ مثلاً جب ممالک مشتبہ افراد پر مقدمہ نہیں چلا سکتے یا انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔
روس اور امریکہ آئی سی سی کے رکن نہیں ہیں۔
برطانیہ نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور یورپی یونین نے کہا کہ یہ صرف آغاز ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ یہ روسی افواج کے بہت سے متاثرین کے لیے ایک بڑا دن ہے۔
روس کے ترجمان دمتری پیسکوف کے مطابق ’مختلف ممالک کی طرح روس بھی اس عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا اور اس لیے قانونی نقطہ نظر سے اس عدالت کے فیصلے کالعدم ہیں۔‘
سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے وارنٹ کا موازنہ ٹوائلٹ پیپر سے کیا، جب کہ وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ یہ روس کے لیے ’کوئی معنی نہیں رکھتے۔‘
پوتن کے خلاف کیس کیا تھا؟
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے یوکرین پر روس کے حملے کے چند دن بعد ہی یوکرین میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
کریم خان نے رواں ماہ کے آغاز پر یوکرین کے دورے کے بعد کہا تھا کہ ’میرے دفتر (آئی سی سی) کی جانب سے بچوں کے مبینہ اغوا کی ترجیحی طور پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘
Au début de sa visite officielle en #Ukraine, le Procureur de la #CPI #KarimAAKhanKC a rencontré Andriy Kostin, Procureur général d'Ukraine.
— CPI-Cour pénale int. (@CourPenaleInt) February 28, 2023
Complémentarité. Coopération. Efforts communs pour assurer la responsabilité pour crimes internationaux. pic.twitter.com/xKLrvxVO8G
انہوں نے سات مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ ’بچوں کو جنگ میں مال غنیمت نہیں سمجھا جا سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خالی بستروں کے ساتھ اپنی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے کریم خان نے کہا تھا کہ انہوں نے جنوبی یوکرین میں بچوں کے لیے ایک کیئر ہوم کا دورہ کیا تھا جو بچوں کو مبینہ طور پر یوکرین سے روسی فیڈریشن یا دیگر مقبوضہ علاقوں میں منتقل کیے جانے کے بعد ویران پڑا تھا۔
کریم خان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ آئی سی سی یوکرین میں ’حساس شہری انفراسٹرکچر‘ پر حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے اور انہوں نے بذات خود بھی ایسے کئی حملوں کی جگہوں کا دورہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ ’ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اجتماعی عزم کی نشاندہی کی کہ اس طرح کی کارروائیوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور مبینہ بین الاقوامی جرائم کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔‘
کریم خان نے بوچا قصبے کے دورے کے بعد یوکرین کو ’جرائم کا منظر‘ قرار دیا تھا۔ اے ایف پی نے اس قصبے کی ایک گلی میں کم از کم 20 لاشیں پڑی دیکھی تھیں۔