روسی محکمہ دفاع کریملن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے یوکرین میں جنگ لڑنے والی نجی فوج ویگنر گروپ کے سربراہ ایوگنی پریگوزن روس چھوڑ کر بیلا روس منتقل ہو جائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پریگوزن کے خلاف مقدمات دائر نہیں کیے جائیں گے اور وہ خود بیلاروس چلے جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویگنر گروپ کے وہ افراد جو ہفتے کو سامنے آنے والی مسلح بغاوت کا حصہ بنے تھے، ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
روسی محکمہ دفاع کے ترجمان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہفتے کو ویگنر گروپ کے سربراہ نے جنوبی خطے روستوف کے فوجی مرکز پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اپنی نجی فوج کے ارکان کو وہاں سے نکال لیا تھا۔
ویگنر گروپ کے سربراہ اور روسی فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اختلافات کے بعد پیدا ہونے والی اس صورت حال نے روس کو گذشتہ کئی دہائیوں کے بدترین بحران کا شکار کر دیا تھا۔
ویگنر سرابرہ نے جس وقت اپنی فوج کے جنوبی خطے سے نکالنے کا اعلان کیا، اس وقت ان کی نجی فوج کا ایک گروپ دارالحکومت ماسکو کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا۔
روسی صدر کا خطاب
اس تمام صورت حال پر روسی صدر ولادی میر پوتن نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے ’غداری‘ سے تعبیر کیا تھا اور ملک میں خانہ جنگی کے خلاف تنبیہ جاری کی تھی۔
انہوں نے اس صورت حال کو ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ اور ’روس کے بقا کے لیے ایک خطرہ‘ قرار دیا۔
یوکرین میں خوشی کی لہر
روس سے سامنے آنے والی ان اطلاعات پر اس کے جنگی مدمقابل یوکرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن اس تمام صورت حال میں ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب ویگنر گروپ کے سربرا ایوگنی پریگوزن نے اپنی فوج کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ روسی دارالحکومت میں خون بہانے سے بچنے کے لیے اپنی فوج کو واپس کیمپس کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔
روسی خون نہیں بہانا چاہتے: ایوگنی پریگوزن
یوکرین میں روس کے لیے کئی محاذ فتح کرنے والے گروپ کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور روسی خون بہانا نہیں چاہتے۔
جنوبی خطے روستوف کے گورنر نے بھی تصدیق کی ہے کہ ویگنر گروپ کے جنگجوؤں نے فوجی ہیڈکوارٹر خالی کر دیا ہے۔
ویگنر گروپ کے اعلان کے بعد لپسٹک خطے کے حکام نے بھی علاقے میں عائد بندشیں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویگنر اور محکمہ دفاع حکام کے درمیان اختلافات کے باعث پیدا ہونے والے اس بحران کو ٹالنے میں بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایوگنی پریگوزن سے ان کے کامیاب مذاکرات کے بعد روسی حکومت نے ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
محکمہ دفاع کے ترجمان کے مطابق: ’خون بہانے سے بچنا، اندرونی تصادم اور غیر یقینی نتائج سے گریز کرنا ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا۔‘
ویگنر گروپ کے جنگجوؤں کے جنوبی فوجی مرکز پر قبضہ کرنے کے بعد روسی صدر کے اہم اتحادی اور چیچنیا کے رہنما رمضان قادروف نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنے دستے روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب یوکرینی صدر کے مشیر میخائیلو پودولیاک نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ایوگنی پریگوزن نے روسی صدر پوتن کو بے عزت کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ روس کی ریاست میں تشدد پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔‘
امریکہ اور اتحادیوں کا محتاط ردعمل
روس میں سامنے آنے والی اس صورت حال پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی کو اپنائے رکھا اور امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بارے میں فرانس، جرمنی اور برطانوی قیادت سے تبادلہ خیال کیا۔
ماسکو نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس معاملے سے دور رہنے کی کڑی تنبیہ کی تھی۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا: ’یہ بغاوت روسی کے بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ُ
ایرانی وزیر خارجہ کا روسی ہم منصب سے رابطہ
ادھر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے روسی ہم منصب سرگے لاوروف سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ روس اس صورت حال سے کامیابی سے نکل آئے گا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سے قبل روس کی صورت حال پر ایرانی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایران روس میں قانونی کی بالادستی کی حمایت کرتا ہے اور حالیہ پیش رفت کو روس کا اندرونی معاملہ مانتا ہے۔‘