روس میں گذشتہ دنوں نجی فوج ویگنر گروپ کی بغاوت کی کوشش کو مغربی میڈیا صدر ولادی میر پوتن کے لیے ایک وجودی خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن ماسکو نے اسے مغرب کے ’روسو فوبک‘ اہداف کے حصول کی کوشش قرار دیا ہے۔
برطانیہ کے سنڈے ٹائمز میں مصنف مارک گیلیوٹی نے ’کیا یہ پوتن کا خاتمہ ہے؟‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں خیال ظاہر کیا ہے کہ روسی صدر کو اپنے 23 سالہ دور اقتدار میں سب سے زیادہ خطرناک وقت کا سامنا ہے۔ ان کے ہاتھ سے دو اہم شہر چلے گئے جس کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کی پوتن سے وابستگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
اگر تاریخ پوتن کے زوال کی کہانی کو قلم بند کرے تو افواہوں سے پتہ چلتا ہے کہ کھیل کا انجام اسی کشمکش سے شروع ہوا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اتوار کو ویگنر گروپ کے کمانڈر یوگینی پریگوزن کی مختصر بغاوت کے جواب میں کہا کہ کرائے کے فوجیوں کی بغاوت کی کوشش نے روسی صدر کے اختیار میں ’حقیقی خلا‘ کو ظاہر کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ باغیوں کو معاف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے سی بی ایس نیوز کے ’اگینسٹ دی نیشن‘ پروگرام کو بتایا: ’نجی کرائے کے گروپ ویگنر اور اس کے لیڈر یوگینی پریگوزن کی بغاوت پوتن کی اتھارٹی کے لیے براہ راست چیلنج تھی۔ یہ کہانی سنگین سوالات اور حقیقی خلا کو جنم دیتی ہے۔‘
ماسکو میں اتوار کو بھی حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ اگرچہ پولیس کی تعداد بہت کم تھی اور عام لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس صورت حال کی کوئی پروا نہیں ہے۔
ریڈ سکوائر پر چہل قدمی کرتے ہوئے 70 سالہ لڈمیلا شمیلیوا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یقینا میں شروع میں ہی کانپ گئی تھی۔ میں اس کی توقع نہیں کر رہی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم لڑ رہے ہیں اور ایک اندرونی دشمن بھی ہے جو آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہا ہے، جیسا کہ صدر پوتن نے کہا تھا، لیکن ہم گھوم پھر رہے ہیں، آرام کر رہے ہیں، ہمیں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا ہے۔‘
پریگوزن کو آخری مرتبہ ہفتے کی رات ایک ایس یو وی میں روستوف آن ڈان سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جہاں ان کے جنگجوؤں نے ایک فوجی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے گاڑی کی کھڑکی میں سے ان سے ہاتھ بھی ملایا۔
بکتر بند گاڑیاں لے جانے والے ٹرک، جن پر جنگجو سوار تھے، ان کی گاڑی کے پیچھے تھے۔
یہ بغاوت یوکرین میں روسی آپریشن پر فوج کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ان کے دیرینہ جھگڑے کا نتیجہ تھی۔
پوتن نے ہفتے کو اس بغاوت کو غداری قرار دیتے ہوئے مجرموں کو سزا دینے کا عہد کیا تھا۔ انہوں نے ان پر روس کو خانہ جنگی کے دہانے پر دھکیلنے کا الزام عائد کیا۔
بیلاروس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو نے کہا کہ انہوں نے پریگوزن کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کی ہے، جس پر ماسکو نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ لوکاشینکو کی مداخلت، جنہیں عام طور پر پوتن کے جونیئر پارٹنر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، بذات خود شرمندگی کا باعث ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے بھی کہا کہ ماسکو پر مارچ ’روسی کیمپ کے اندر موجود تقسیم اور اس کی فوج اور اس کی معاون افواج دونوں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔‘
دوسری جانب روسی وزارت خارجہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ مغربی ممالک کی طرف سے ’اپنے روسو فوبک‘ اہداف کے حصول کے لیے صورت حال کو استعمال کرنے کی کوئی بھی کوشش بے سود ثابت ہوگی۔‘
وزارت کے بیان میں کہا گیا کہ ’ہمارے ملک میں مسلح بغاوت کی کوشش نے روسی معاشرے میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جو روسی فیڈریشن کے صدر ولادی میر پوتن کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سازشیوں کی مہم جوئی کا مقصد درحقیقت روس میں حالات کو غیر مستحکم کرنا اور ہمارے اتحاد کو تباہ کرنا ہے۔‘
چین کی وزارت خارجہ نے بغاوت کو روس کا ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا اور پوتن کی حکومت کی حمایت کی ہے۔
دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی جاسوسوں کو جون کے وسط میں پتہ چلا کہ پریگوزن روس میں مسلح کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ پوتن کو یہ بھی معلوم تھا کہ پریگوزن ایک منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کی اطلاع کا صحیح وقت واضح نہیں ہے لیکن یہ ویگنر کے آپریشن کے آغاز سے ’یقینی طور پر 24 گھنٹے سے زیادہ‘ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پوتن نے اس آپریشن کو ناکام بنانے کے لیے کیوں کارروائی نہیں کی۔ امریکی حکام کا قیاس ہے کہ پوتن کی بے عملی روسی حکومت کے اعلیٰ ترین سطح پر ہم آہنگی کی کمی اور ممکنہ اندرونی دشمنیوں کی عکاسی کرتی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان معلومات نے اقتدار میں ولادی میر پوتن کے استحکام اور بقا کے بارے میں شدید خدشات پیدا کیے ہیں اور اس عدم استحکام کا روس کے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے مطلب خطرناک ہو سکتا ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ پریگوزن کے منصوبوں کی نوعیت اور وقت اس سے کچھ دیر قبل تک واضح نہیں تھا لیکن امریکی قیادت کے لیے کافی اشارے موجود تھے۔ امریکی حکام کے مطابق روس میں خانہ جنگی کے باعث پیدا ہونے والے ممکنہ عدم استحکام پر انہیں شدید تشویش لاحق تھی۔
اے ایف پی کے مطابق روس کے سرکاری ٹیلی ویژن نے پیر کو وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کی فوٹیج نشر کی جس میں وہ ویگنر فورسز کی ناکام بغاوت کے بعد پہلی بار روسی فوجیوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے کی جانب سے دکھائی جانے والی تصاویر کے مطابق شوئیگو، جو کرائے کے فوجی گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنے تھے، یوکرین میں روسی افواج کی ایک کمانڈ پوسٹ پر گئے اور وہاں ان میں سے ایک یونٹ کے سربراہ سے ملاقات کی۔
فوٹیج میں شوئیگو کو علاقے کی فوجی صورت حال پر پیش کی جانے والی ایک رپورٹ سنتے ہوئے، نقشوں کا مطالعہ کرتے اور روسی پوزیشنوں کا معائنہ کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر کی سواری کرتے دکھایا گیا ہے۔