پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ نااہلی کی مدت میں تبدیلی کے قانون پر مسلم لیگ ن کو اطمینان ہے لیکن ان کے بقول اب بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق بعض معاملات زیر غور ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 میں ترمیم کے بغیر نواز شریف کو نااہلی سے متعلق حالیہ قانون سازی کا فائدہ نہیں ہو گا۔
قائم مقام صدر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے مدت نااہلی کو پانچ سال کرنے سے متعلق بل کی منظوری کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم تصور کی جا رہی ہے۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کیا سابق وزیراعظم کو وطن واپسی پر قانون کا سامنا کرنا ہو گا یا نہیں۔
نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں عدالتوں سے سزا کے بعد نااہلی کے پانچ سال پہلے ہی پورے کر چکے ہیں۔ گذشتہ روز قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے جب صدر عارف علوی کے حج پر جانے کی وجہ سے الیکشن ایکٹ بل پر دستخط کیے تو یہ بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا ہے۔
اس قانون کے تحت الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نیا شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکے گا۔
نئے قانون کے تحت آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے سنائی جانے والی تاحیات نااہلی کی سزا پانچ سال میں تبدیل ہو چکی ہے۔
ایک طرف نواز شریف کی واپسی سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں تو دوسری جانب ان کی واپسی پر قانون کا سامنا کرنے سے متعلق ماہرین قانون کی رائے بھی منقسم نظر آ رہی ہے۔
نواز شریف کی واپسی کب ہوگی؟
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس سوال کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میاں نواز شریف کی نااہلی سے متعلق بل تبدیل ہو چکا ہے۔ اس بارے میں پارٹی میں اطمینان پایا جاتا ہے اور ہم پارلیمنٹ کی جانب سے اس قانون سازی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میاں نواز شریف کی واپسی کا سوال ہے تو اس بارے میں ابھی مشاورت جاری ہے۔ جب ان کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ فائنل ہوجائے گی تو نواز شریف کی ہدایت پر کوئی پارٹی رہنما یا وہ خود میڈیا کے سامنے تاریخ کا اعلان کریں گے۔‘
پرویز رشید کے بقول ’جب تک میاں صاحب خود شیڈول طے کر کے میڈیا اور عوام کے سامنے اعلان کا حکم نہیں دیں گے کسی بھی پارٹی رہنما کی طرف یہ اپنے طور پر اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی واپسی کے لیے پاکستانی عوام اور ہمارے کارکن بے تاب ہیں۔‘
پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا اندازہ نواز شریف صاحب کو بھی ہے مگر کچھ معاملات ابھی ہیں جن پر غور ہو رہا ہے اس کے بعد واپسی کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ ان کی واپسی پر بھر پور استقبال کی تیاریاں کی جائیں گی۔‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف لندن سے متحدہ عرب امارات پہنچ چکے ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف بھی پاکستان سے وہاں پہنچی ہیں۔ جہاں ن لیگی قیادت کی سابق صدر آصف زرداری اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔
ن لیگ کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب بھی جائیں گے۔ لیکن ابھی تک نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق پارٹی کی جانب سے کوئی شیڈول یا تاریخ نہیں بتائی گئی۔
نواز شریف کو واپسی پر کس طرح قانون کا سامنا کرنا پڑے گا؟
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل اظہر صدیق کے بقول: ’ایک بات تو واضح ہے کہ جہاں تک نواز شریف کی نااہلیت اور سزاؤں سے معافی کا معاملہ ہے یہ خواب اچھا ہے۔ کیونکہ اگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر دیں گے تو یہ اس کا اطلاق الیکشن ایکٹ تک تو ہوسکتا ہے۔ لیکن نااہلی کے آرٹیکل 62میں ترمیم کیے بغیر اس کا فائدہ نواز شریف کو نہیں ہو گا۔‘
ان کے مطابق ’نواز شریف کی تاحیات نااہلی سپریم کورٹ نے 62ون ایف کے تحت کی ہے۔ لیکن نیب کے دو کیسوں میں انہیں سزا ہوئی ہے ایک میں 10سال اور دوسرے میں سات سال سزا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ ’نیب قانون کے سیکشن 15کے تحت یہ جو نااہلی ہے یہ 10 سال کے لیے برقرار رہے گی۔ اس سزا کو ختم کرانے کے لیے عدالت میں اپیل کی سماعت ہو گی اگر یہ بری ہوجائیں گے تو پھر اس میں فائدہ ہوجائے گا۔ لیکن ان کی نااہلی کئی اور کیسوں میں بھی ہے لہذا اس نئے قانون کا نواز شریف کو زیادہ فائدہ نہیں ہو سکے گا۔‘
ان کے مطابق ’اس لیے جب نواز شریف وطن واپس آئیں گے تو انہیں جیل جانا ہو گا حکومت ان کے گھر کو سب جیل قرار نہیں دے سکے گی کیونکہ وہ سزا یافتہ ہیں تو سزا یافتہ کو جیل جانا ضروری ہوتا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی جانب سے کیسوں کی پیروی کرنے والے قانون دان میاں داؤد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے نواز شریف کو عدالت نے جو تاحیات نااہل قرار دیا تھا وہ پانچ سال میں تبدیل ہونے کے بعد نااہلی ختم ہوچکی ہے۔ لیکن جو انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ملز کیس میں احتساب عدالت سے قید کی سزائیں سنائی گئی ان میں بریت لازمی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس حوالے سے ان کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے سے دائر ہو چکی ہے۔‘
میاں داؤد کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کو پاکستان واپسی پر اپیل کے لیے حفاظتی ضمانت لے کر عدالت پیش ہونا ہو گا۔ قانون کے مطابق انہیں اپنی اپیل کی سماعت کے دوران عدالت جانا پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اپیل سماعت کے لیے منظور ہو گی پھر انہیں ایک مرتبہ جیل بھی جانا ہو گا۔ چاہے تو حکومت یعنی محکمہ داخلہ ان کی رہائش گاہ کو سب جیل کا درجہ دے سکتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ عدالت پیش ہوں گے تو سزاؤں کے خلاف اپیل کے دوران ضمانت بعد از گرفتاری بھی حاصل کر سکیں گے۔‘
ان کے بقول ’نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت سے سنائی گئی سزاؤں کے فیصلے کیونکہ پہلے ہی متنازع ہو چکے ہیں اس لیے نواز شریف کی واپسی پر یہ سزائیں بھی کالعدم ہو جائیں گی۔ نواز شریف نے پہلے بھی عدالتوں اور جیل سے راہ فرار اختیار نہیں کی تھی اس لیے وہ اب بھی قانون اور عدالتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘