قومی اسمبلی نے اتوار کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔
ترمیم کے بعد کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال ہو گی۔ ترمیم سے قبل الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں تھا۔
بل کے تحت الیکشن ایکٹ کی شق 57 میں بھی ترمیم کی گئی ہے، جس کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول میں ترمیم کر سکے گا اور وہ صدرِ مملکت کے ساتھ مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ دے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی عرفان قادر نے نااہلی سے متعلق ترمیم پر کہا ’اس بل کی منظور سے عدالتیں شرمندگی سے بچ گئی ہیں کیوں کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔‘
عرفان قادر سے جب سوال کیا گیا کہ کیا اس بل کی منظوری کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو جائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ جب قانون کو واضع کیا جاتا ہے تو اس کا اطلاق ماضی بعید سے شروع ہو جاتا ہے۔
’اس بل کی منظور کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف ہمیشہ سے ہی الیکشن لڑنے کے اہل ہیں۔
سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف راؤف حسن کا کہنا تھا: ’جب سے یہ حکومت میں آئے ہیں خود کو بچانے کے اقدامات کر رہے ہیں اور یہ بھی اس کا حصہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا اس قانون کو چیلنج کرنا ہے یا اس کے بارے میں کیا قدم اٹھانا ہے، اس کا فیصلہ پارٹی مشاورت کے بعد کرے گی۔
ماہر قانون اور صدر پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری کا کہنا تھا کہ 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کے فیصلے 2013 میں بھی آئے، جس میں جعلی ڈگری کے کیسز بھی شامل ہیں۔
’سپریم کورٹ کے فیصلوں کے متعلق جو لوگ ایسے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں انہیں پارلمنٹ کا حصہ نہیں ہونا چاہیے اور نواز شریف، جہانگیر ترین کیس میں بھی عدالت تاحیات نااہلی کیس میں ڈکلیریشن دے چکی ہے۔ ‘
عابد زبیر کا کہنا تھا نئی ترمیم کے بعد عدالتی فیصلوں کے بعد بھی نااہلی پانچ سال کی ہی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس ترمیم پر مزید رائے دیتے ہوئے کہا کہ 'بظاہر لگتا ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہو جائے گی لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ نئے قانون کی روح سے عدالت نے تاحیات ناہلی کیس کے فیصلے میں جو آئین کی جو تشریح کیا وہ دور ہو جائے گی؟'
نواز شریف پاناما پیپر کیس اور جہانگیر ترین اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے کے کیس میں 2017 میں سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے تھے۔
اپریل 2018 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق آرٹیکل 62 کے تحت ہونے والی نااہلی تاحیات قرار پائی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات رہے گی۔
اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔