برطانیہ میں ایک ایسا پودا لایا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے ڈنک سے انسان میں خودکشی کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
جمپی جمپی نامی اس آسٹریلوی پودے کا نام اس میں پائی جانے والی خصوصیات کے باعث رکھا گیا۔
انگلینڈ میں نارتھمبرلینڈ کے النوک گارڈن میں موجود اس پودے کی چھوٹی سی بالوں جیسی سوئیاں اگر جلد پر لگ جائیں تو بیک وقت کرنٹ اور آگ لگنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔
النوک گارڈن کے فیس بک پیج کے مطابق یہ درد اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ لوگ اس سے نجات پانے کے لیے جان لیوا اقدام بھی اٹھا سکتے ہیں۔
اس پودے کو سرکاری طور پر پریس اور عوام کے سامنے دکھایا گیا۔ پودے کو شیشے کے ڈبے میں تالا لگا کر رکھا گیا ہے۔
برطانوی اخبار مِرّر کے مطابق جمپی جمپی میں زہریلے مادوں سے بھری بالوں جیسی چھوٹی سوئیاں ہوتی ہیں جن کی لمبائی 10 میٹر تک لمبی ہو سکتی ہے۔
کچھ رپورٹ شدہ کیسز میں اس کے ڈنک کا اثر ہفتوں یا مہینوں تک رہ سکتا ہے اور اس کی وجہ سے مریض خودکشی کر لیتے ہیں کیونکہ وہ تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔
پوائزن گارڈن کے ٹور گائیڈ جان ناکس نے مرر کو بتایا، ’یہ پودا عام طور پر پھولتا ہے اور اس کا پھل اس وقت آتا ہے جب اس کی اونچائی تین میٹر سے کم ہو۔
’اس کی اونچائی 10 میٹر تک جا سکتی ہے۔ تنا، شاخیں، پتے کی ڈنڈی، پتے اور پھل سبھی نوک دار بالوں میں ڈھکے ہوئے ہیں اور انہیں چھوا نہیں جا سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: پورے پودے پر موجود ٹرائیکومز نامی چھوٹے بال، زہریلے مادوں سے بھرے ہوتے ہیں اور اگر انہیں چھوا جائے تو ایک سال تک جلد میں رہتے ہیں۔
یہ بال متاثرہ جگہ کو چھونے، وہاں پانی لگنے یا درجہ حرارت میں تبدیلی کے وقت زہریلا مواد جسم میں چھوڑتے ہیں۔
یہ پودا آسٹریلیا میں دریافت ہوا تھا۔ 1866 میں ایک سڑک کا سروے کرنے والے شخص کا گھوڑا اس کا ڈنک لگنے کے بعد پاگل ہو گیا اور ’دو گھنٹوں کے اندر ہی مر گیا‘ تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے آسٹریلوی فوجی سیرل بروملے نے ایک اور ہولناک کہانی بیان کی جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے وہ تربیت کے دوران اس قسم کے پودوں میں پھنس گئے تھے جس کے باعث کئی ہفتوں کی اذیت اور غیر موثر علاج کے بعد پاگل پن کا شکار ہو گئے۔