سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین علی ظفر ملک نے منگل کو کہا کہ نئے صوبوں کے قیام سے متعلق فیصلہ نومبر میں ہوگا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ملک میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق صوبوں اور سیاسی جماعتوں سے تجاویز لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیئرمین سینیٹر علی ظفر ملک کی صدارت میں ہونے والی سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی میں ملک میں نئے صوبے بنانے سے متعلق بل کمیٹی میں پیش کیا گیا۔
اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے فاروق نائک نے پڑوسی ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں انتظامی یونٹس بنتے ہیں تو آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ پاکستان میں صوبوں کے معاملے پر آئینی ترمیم ضروری ہے۔
’نئے صوبے بنانے کے لیے آئینی ترمیم کرنی پڑے گی۔ فی الحال اس معاملے کو موخر کر دیں، نئی اسمبلی آنے کے بعد اس معاملے کو لے کر آئیں۔ یہ کام جذبات کا نہیں ہے۔ آئین و قانون جذبات نہیں دیکھتا، قانون اندھا ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب سینیٹر ولید اقبال نے بھی فاروق نائک کی تائید کرتے ہوئے کہا یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا محمود الحسن نے سرائیکی اور سینیٹر محمد صابر شاہ نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق بل کمیٹی میں پیش کیا۔
چیئرمین کمیٹی علی ظفر نے کہا کہ صوبوں سے متعلق معاملے پر تمام جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی بھی رائے آ جائے، کمیٹی کی توسیع کے لیے چیئرمین کو لکھیں گے۔
سکریٹری وزارت قانون و انصاف نے کہا کہ پرائیویٹ بلز کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی۔
’جنوبی پنجاب والے بل بھی لے آئے تھے۔ اس وقت 20 سے زائد ترامیم صوبوں اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پڑی ہیں۔‘
چیئرمین کمیٹی نے کہا، ’صوبوں کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبوں، تمام سٹیک ہولڈرز، وزارت خزانہ کو سننے کے بعد فیصلہ ہوگا۔ ملک میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق فیصلہ نومبر میں کریں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے سے متعلق بل پیش کرنے والے صابر شاہ نے کہا کہ ’وفاق کے اندر جتنے وفاقی یونٹس ہوتے ہیں وفاق اتنا مضبوط ہوتا ہے۔ ملک کو نئے صوبوں کی ضرورت ہے۔ لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ لوگوں کی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں۔‘
صابر شاہ نے کہا: ’پارلیمان سے اس کی منظوری لینی ہے جو کہ ایک لمبا عمل ہے۔ چاہتے ہیں سب مل بیٹھ کر اس معاملے پر بات کریں۔‘