عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے عام مصنوعی مٹھاسوں میں سے ایک ایسپرٹیم (Aspartame)کو ایسا پروڈکٹ قرار دے رہا ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں میں سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔
ایسپرٹیم دنیا بھر میں مصنوعی مٹھاسوں میں سے ایک ہے جس کا استعمال ڈائٹ مشروبات اور چیونگ گم وغیرہ میں بکثرت کیا جاتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے نیوٹریشن اینڈ فوڈ سیفٹی ڈائریکٹر فرانسسکو برانکا نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم کمپنیوں کو اپنی مصنوعات (جن میں ایسپرٹیم کا استعمال ہو) واپس لینے کا مشورہ نہیں دے رہے اور نہ ہی ہم صارفین کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ مکمل طور پر ان کا استعمال بند کر دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بس اعتدال برتنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔‘
فرانسسکو برانکا نے جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران ایسپرٹیم کے حوالے سے دستیاب شواہد کے دو جائزوں کے نتائج پیش کیے۔
ڈبلیو ایچ او کی کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے آر سی) نے چھ سے 13 جون تک فرانس کے شہر لیون میں ہونے والے اجلاس میں ایسپرٹیم میں کینسر کا سبب بننے والی تحقیق کا پہلا جائزہ لیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او کے کینسر ریسرچ ونگ ذرائع نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ کوکا کولا ڈائٹ سے لے کر مارس ایکسٹرا کی چیونگ گم اور سنیپل کمپنی کے بعض مشروبات میں استعمال ہونے والی ایسپرٹیم نامی مصنوعی مٹھاس کو جولائی میں آئی اے آر سی کی طرف سے پہلی بار ’ممکنہ طور پر انسانوں کے لیے سرطان کا سبب بننے والی‘ پراڈکٹ طور پر درج کیا جائے گا۔
ماضی میں مختلف خوردنی اشیا کے حوالے سے آئی اے آر سی کی اسی طرح کی ہدایات نے صارفین میں ان کے استعمال کے بارے میں تشویش پیدا کر دی تھی۔
ڈبلیو ایچ او نے اب کہا ہے کہ ’ورکنگ گروپ نے ایسپرٹیم کی ممکنہ طور پر انسانوں کے لیے سرطان پیدا کرنے والے مواد کے طور پر درجہ بندی کی ہے۔ تاہم اسے دستیاب محدود شواہد کی بنیاد پر گروپ 2B کیٹیگری میں رکھا گیا تھا۔‘
لاس اینجلس میں سیڈرس سینائی میڈیکل سینٹر میں کینسر کے پروفیسر پال فروہ نے کہا کہ گروپ 2B کیٹیگری میں ایلو ویرا اور چائے اور کافی میں پائے جانے والے کیفیک ایسڈ کا عرق بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’عام لوگوں کو گروپ 2B کے کیمیکل سے منسلک کینسر کے خطرے کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔‘
ایک دن میں نو سے 14 کین
کھانے میں ذائقے اور تا دیر اسے محفوظ بنانے والے مواد سے متعلق ڈبلیو ایچ اور اور اقوام متحدہ کی ایجنسی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی طرف سے تشکیل دی گئی مشترکہ کمیٹی نے 27 جون سے چھ جولائی تک جنیوا میں ایسپرٹیم سے وابستہ خطرات کا جائزہ لینے کے لیے ملاقات کی تھی۔
جے ای سی ایف اے نامی اس گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نے جس اعداد و شمار کا جائزہ لیا اس نے 1981 میں روزانہ قابل قبول مقدار کو تبدیل کرنے کی کوئی جواز نہیں ملا جو کہ صفر سے 40 ملی گرام ایسپرٹیم انسانی جسم کے فی کلوگرام وزن کے لحاظ سے لی جا سکتی ہے۔
شوگر فری سافٹ ڈرنک کے کین میں عام طور پر 200 یا 300 ملی گرام ایسپارٹیم ہوتا ہے اس لیے 70 کلو وزن کا ایک بالغ شخص روزانہ قابل قبول مقدار کے لیے نو سے 14 کین استعمال کر سکتا ہے یہ فرض کرتے ہوئے کہ وہ کسی دوسرے ذرائع سے ایسپرٹیم کی اضافی مقدار نہیں لے رہا۔
لیکن برانکا کا کہنا ہے کہ مسئلہ ایسی مصنوعات کا زیادہ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ہے۔ ان کے بقول: ’کوئی ایسا شخص جو ہر سوڈا پیتا ہے، اسے فکر نہیں ہونی چاہیے۔‘
سوڈا، چیونگ گم اورسیریلز
ایسپرٹیم ایک مصنوعی کیمیائی مٹھاس ہے جو 1980 کی دہائی کے بعد سے کھانے پینے کی مختلف مصنوعات میں وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہی ہے۔
یہ ڈائیٹ ڈرنکس، چیونگ گم، جیلیٹن، آئس کریم، ڈیری مصنوعات جیسے دہی، ناشتے کے سیریلز، ٹوتھ پیسٹ، کھانسی کے سیرپ اور چبانے والے وٹامنز میں پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیشنل سویٹینرز ایسوسی ایشن (آئی ایس اے) نے کہا کہ ایسپرٹیم کی گروپ 2B کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے جس میں کمچی (کورین اچار) اور دیگر سبزیوں والے اچار بھی شامل ہیں۔
آئی ایس اے کے سربراہ فرانسس ہنٹ ووڈ نے کہا: ’جے ای سی ایف اے نے ایک مکمل، جامع اور سائنسی طور پر سخت جائزہ لینے کے بعد ایک بار پھر ایسپرٹیم کو محفوظ قرار دیا ہے۔‘
لیکن صارفین کی تنظیم فوڈ واچ کی مینیجر کیملی ڈوریوز اس سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والی میٹھاس کی ہمارے کھانے پینے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
سوڈے کی بجائے صرف پانی پیئیں
رواں سال مئی میں ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ مصنوعی مٹھاس وزن کم کرنے میں مدد نہیں کرتیں اور صحت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے نام نہاد ’نان شوگر‘ میٹھا استعمال کرنے کے خلاف ہدایات جاری کیں تھیں۔
برانکا سے پوچھا گیا کہ جمعے کی اپ ڈیٹ کی روشنی میں صارفین کو اب کیا کرنا چاہیے تو انہوں نے کہا کہ ’تیسرے آپشن پر غور کیا جانا چاہیے جو کہ پانی پینا ہے اور میٹھی مصنوعات کے استعمال کو مکمل طور پر محدود کرنا ہی بہتر حکمت عملی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے کئی متبادل ہیں جن میں شوگر فری یا سوئٹنرز شامل نہیں ہیں اور یہ وہ مصنوعات ہیں جنہیں صارفین کو ترجیح دینی چاہیے۔‘