پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں گذشتہ 30 سالوں سے اپنی چھوٹی سے دکان میں بشیر احمد طلبہ کو خوش خطی سکھا رہے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے پینٹر بشیر احمد شانی 12 سے 16 گھنٹے روزانہ مختلف سکولوں میں لیکچر اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے استاد شانی نے بتایا کہ خوش خطی انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے۔ ماضی میں سکولوں میں تختیاں لکھوانے کا رجحان تھا جس سے طالب علموں کی لکھائی بھی اچھی ہوتی تھی۔
ان کا اس حوالے سے کہنا تھا تھا: ’تختیوں کی وجہ سے والدین پر مالی بوجھ بھی نہیں تھا اب سکولوں میں نوٹ بکس کا خرچہ آگیا ہے جبکہ پینسلوں اور ربڑ وغیر ہ پر اوسطاً 30 یا 40 روپے روزانہ خرچ آتا ہے۔ بچے اکثر کاپیاں ضائع بھی کردیتے ہیں اور گم بھی ہوجاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں تختی کا ایک بار کا ہی بہت معمولی خرچ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
استاد شانی نے بتایا کہ ان کی دکان پر ہر روز صبح سات بجے سے نو بجے اور شام پانچ بجے سے سات بجے تک باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں اور وہ آنے والے بچوں سے فیس وغیر نہیں لیتے۔
’تاہم اگر کوئی اس کام کے لیے گھر بلاتا ہے تو اخراجات کے لیے رقم لیتا ہوں، سرکاری سکولوں میں اچھا ردعمل ملتا ہے وہاں کے بچوں میں جذبہ ہوتا ہے شوق ہوتا ہے۔ عوام میں اب بھی خوش خطی کا شوق ہے میرے بے شمار شاگرد ہیں بلکہ اس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب میرے شاگرد اپنے بچوں کو میرے پاس داخل کرواتے ہیں۔‘
رحیم یار خان کے ممتاز سماجی رہنما اور چیمبر آف کامرس کے اہم رکن احسن آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا استاد شانی کا جذبہ قابل ستائش ہے۔
’یہ اپنی سادہ طبعیت مگر خوش خطی سکھانے کے جنون کی وجہ سے رحیم یار خان میں خاصے مقبول ہیں۔ میں نے بھی استاد بیشر صاحب سے تربیت حاصل کی ہے اب اکثر ان کے پاس بچوں کو لاتا ہوں تاکہ وہ بھی یہ ہنر سیکھیں۔‘
علاقے میں قائم مثالی سکول کے پرنسپل حافظ شہزاد نے بتایا: ’ہم استاد بشیر سے سکول میں خصوصی لکچرز کا اہتمام کراتے ہیں۔ جبکہ ہم تو اپنے اساتذہ کو بھی ان سے خوش خطی سکھاتے ہیں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کو مزید بہتر کر سکیں۔‘