بالی وڈ سنیما میں جب پہلی بار آواز آئی تب سے فلموں میں قوالی کا دور دورہ ہے۔ فلموں میں قوالی کے استعمال کو تقریباً 80 سال ہو چکے ہیں۔
دہلی میں ایک فلم ساز اور ریسرچر یوسف سعید ہیں جنہوں نے تقریباً 800 فلمی قوالیوں کا آن لائن آرکائیو تیار کیا ہے۔
یوسف سعید نے گذشتہ 80 سال کی فلمی قوالیوں کو تلاش کر کے ایک آن لائن آرکائیو میں جمع کر رکھا ہے۔
یوسف سعید کی اس آرکائیو میں 1940 سے 2023 تک کی فلمی قوالیاں مل جائیں گی۔ جس میں کچھ ویڈیوز یوٹیوب سے مربوط ہیں تو کچھ ذاتی کلیکشن سے اپ لوڈ کی گئی ہیں۔
’سینے قوالی ڈاٹ ان‘ کے نام سے تیار کردہ ویب سائٹ میں 1940 سے 2023 تک کی فلمی قوالیوں کا آرکائیو موجود ہے۔
یوسف سعید نے تقریباً 12 برس قبل سنیما قوالی پروجیکٹ کے نام سے قوالیوں کو جمع کرنا شروع کیا اور پھر دامے درمے جیسے جیسے قوالی کی دریافت ہوتی گئی ویسے ویسے وہ اسے ویب سائٹ کا حصہ بناتے گئے۔
یوں تو سینکڑوں کی تعداد میں قوالیاں یوٹیوب پر دستیاب تھیں مگر انہیں تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے اسے کی ورڈ کے ساتھ آرکائیو کا حصہ بنایا گیا۔
سعید یوسف کا کہنا ہے کہ یہ آرکائیو ان کی ’کئی دہائیوں کی محنت کا نتیجہ ہے، جس میں ڈی وی ڈی، سی ڈی اور پھر یوٹیوب کا سفر شامل ہے۔‘
یوسف سعید جو پیشہ سے ایک آزاد فلم ساز ہیں اور صحافت کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں نے بتایا کہ ’برسوں کی ریسرچ کے دوران مجھے سینکڑوں قوالیاں ملیں۔ جس میں کچھ قوالی کے زمرے میں تھے اور کچھ قوالی سے قریب، انہیں چھان پھٹک کر میں نے ان سب کی ایک فہرست تیار کی اور ایک آن لائن آرکائیو بنا دیا۔‘
’اس آن لائن آرکائیو کا نام ہے سنیما قوالی آرکائیو، اس آرکائیو میں بمبے سنیما میں گزشتہ 80 سالوں کے دوران گائے گئے قوالیاں شامل ہیں۔ جس کی تعداد تقریباً 800 تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کوئی بھی سینے قوالی ڈاٹ ان پر جا کر ان قوالیوں کو دیکھ اور سن بھی سکتا ہے۔‘
یوسف کے مطابق ’قوالیوں کی آن لائن تلاش ایک مشکل کام ہے۔ اگر آپ یوٹیوب میں کوئی قوالی تلاش کرتے ہیں بس چند قوالیاں ہی ملتی ہیں یا جو حال میں مشہور ہوئی ہیں مگر جو فلموں کی پرانی قوالیاں ہیں، اسے ڈھونڈنا مشکل ہے۔‘
’اسی پر میں نے کام کیا اور آن لائن آرکائیو کی شکل میں اسے پیش کیا ہے، تاکہ سال کے حساب سے اسے تلاش کرنا آسان ہو سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب سے فلموں میں آواز آنا شروع ہوئی ہے، تب سے فلموں میں قوالی ہے۔ 1930 اور اس کے بعد جو فلمیں بنیں، اس کے ساؤنڈ ٹریک گم ہو گئے۔‘
’ہمیں ان کے گانوں کے نام تو ملتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس نے لکھا اور کس نے گایا۔ جیسے سب سے پہلی ساؤنڈ فلم تھی عالم آرا، اس میں ایک گانا تھا، دے دے خدا کے نام پر پیارے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نغمہ در اصل قوالی تھا، ایک فقیر اس قوالی کو گاتا جا رہا ہے۔‘
یوسف سعید نے مزید کہا کہ ’1936 کی کچھ فلمیں ہیں، 38 کی 39 کی فلمیں ہیں۔ ان کے نام بھی بہت عجیب و غریب ہیں۔ جیسے 1936 کی ایک فلم ہے۔ ’مس فرنٹیر میل‘ جس میں دو قوالیاں ہیں۔ اسی طرح سے ایک فلم ہے، ’برانڈی کی بوتل’ اس میں ایک قوالی ہے شراب کے بارے میں ہے۔ لیکن یہ قوالی شراب کے خلاف ہے۔‘
’اس وقت گاندھی اور دیگر لوگوں کے ذریعے شراب کے خلاف تحریک چل رہی تھی، اسی پر یہ فلم بنی تھی۔ اس کے بعد اور بھی قوالیاں آئیں۔ 1945ء میں ایک فلم آئی جس کا نام ’زینت‘ ہے جس میں ایک قوالی تھی، جسے صرف خواتین نے گایا تھا۔ اس میں نور جہاں اور دیگر لوگوں کی آواز ہے۔‘
یوسف سعید کا کہنا ہے کہ ’1960 سنیما قوالی کے لئے بہت خاص سال ہے۔ اس میں تین بڑی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ایک مغل اعظم، ایک چودھویں کا چاند اور ایک برسات کی رات۔ ان تینوں فلموں میں کوئی نہ کوئی قوالی ضرور ہے۔ برسات کی رات پوری کی پوری قوالی پر ہے، جس میں دو بہنیں ہیں جو قوال بننا چاہتی ہیں۔ اس طرح سے قوالیاں بنیں اور پھر کلر کا دور آیا۔‘
یوسف نے اپنے ریسرچ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’فلمی قوالی میں سب سے زیادہ محمد رفیع کی آواز ملتی ہے۔ خواتین میں آشابھوسلے کی آواز بھی ملتی ہے۔ اس کے بعد منا ڈے کا نام آتا ہے، جن کی آواز قوالی میں کافی استعمال ہوئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گزشتہ تین دہائیوں میں ہم ایک مختلف قوالی دیکھتے ہیں، جس میں نصرت فتح علی خان اور اے آر رحمان کے ذریعہ پیش کردہ قوالیاں ہیں جس نے فلمی قوالی میں انقلاب برپا کر دیا۔‘