اگست کی 16 تاریخ، سال 1997، شہنشاہ قوالی استاد نصرت فتح علی خان 48 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
23 برس بیت گئے مگر نصرت فتح علی خان کے بعد آنے والی نسلیں بھی ان کی قوالیوں پر جھومتی ہیں ۔
فیصل آباد میں پیدا ہونے والے پٹیالہ گھرانے کے نصرت فتح علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال استاد فتح علی خان کے بیٹے اور استاد مبارک علی خان کے بھتیجے تھے۔ ان کے والد تو چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئیر بنیں مگر نصرت فتح علی خان اپنے والد کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے اور پھر انہوں نے اپنے آبائی فن کوکمال کے اس درجے تک پہنچا دیا کہ موسیقی کا ذوق اور علم رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نصرت فتح علی خان کے جانے کے بعد بھی ان کے پلے کا کوئی قوال و گلوکار پیدا نہیں ہوا۔
نصرت فتح علی خان نے جہاں قوالی یا صوفی موسیقی کو مشرق میں منوایا وہیں ان کے اس فن نے مغرب کے فنکاروں کو بھی متاثر کیا اور انہوں نے مشرقی و مغربی فیوژن کا ایسا امتزاج پیش کیا جو شاید پہلے کبھی کوئی نہں کر پایا تھا۔
احمد عقیل روبی معروف شاعر، ناول نگار، مترجم، محقق و نقاد اور ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے نصرت فتح علی کی زندگی، شخصیت اور فن پر ایک جامع کتاب 'نصرت فتح علی خان' تصنیف کی جسے ورڈز آف وزڈم پبلشرز نے 1992 میں شائع کیا۔
اس کتاب میں مشہور انگریزی گلوکار اور میوزک ڈائریکٹر پیٹر گیبریل کی جانب سے نصرف فتح علی خان کے لیے دیے گئے پیغام میں ان کا کہنا تھا' میری نصرت فتح علی سے ملاقات لندن میں ہونے والے ایک شو میں ہوئی، میں نے وہیں انہیں پہلی مرتبہ سنا۔ ان کا ردم، تال، بیٹ سب کچھ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ان کی آواز کی رینج اتنی زیادہ تھی جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے اس کی بنیاد پر میں نے نصرت کو اپنی فلم لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کے پس منظر میوزک کے لیے استعمال کیا۔ فلم میں جہاں مصلوب کیے جانے کے مناظر ہیں ان کے پیچھے نصرت فتح علی خان نے راگ درباری میں الاپ کیا ۔
'اس خاص سین کے لیے میں نے نہ جانے دنیا کے کتنے گلوکاروں کو آزمایا لیکن مجھے ان کی آواز میں زور نہیں ملتا تھا۔ آخر کار نصرت آیا اور اس کی خوبصورت آواز نے اس فلم کو چار چاند لگا دئیے۔'
نصرت فتح علی خان نے خود بھی اپنے چند ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ انہیں مغرب میں متعارف کروانے والے شخص پیٹر گیبریل تھے اس کے علاوہ نصرت فتح علی خان نے مشہور گلوکارہ میڈونا کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کے گانوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔
نصرف فتح علی خان کے قریبی دوست، سوشلائٹ اور موسیقی کی دنیا میں بے حد معروف یوسف صلاح الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ نصرت فتح علی خان کی کچھ یادیں شئیر کیں۔
یوسف صلاح الدین کہتے ہیں ، 'نصرت فتح علی خان کی قوالی ہم کبھی کبھی پی ٹی وی پر دیکھتے تھے ان کے ساتھ ان کے تایا مبارک علی بھی ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ میری حویلی بارود خانہ اندرون شہر لاہور میں ایک مقامی خاتون نے قوالی کی محفل رکھنے کی درخواست کی، میں نے انہیں اجازت دے دی۔'
'انہوں نے مجھے بتایا کہ اس محفل میں نصرت فتح علی خان آئیں گے۔ اس وقت ان کی قوالی ، 'یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے' نئی نئی مشہور ہوئی تھی ۔ ان دنوں موجودہ وزیر اعظم عمران خان میری حویلی میں ٹھہرے ہوئے تھے میں نے انہیں بتایا کہ شام کو قوالی سنیں گے۔'
'یہ80 کی دہائی کی بات ہے جب عمران خان شوکت خانم کے لیے فنڈ ریزنگ کر رہے تھے۔ میں اور عمران خان چھت پر بیٹھ گئے اور نیچے نصرت فتح علی خان قوالی سنا رہے تھے۔ ہم دیکھتے رہے اور سنتے رہے۔ عمران خان بہت زیادہ متاثر ہوئے انہوں نے پھر نصرت فتح علی خان سے کہا کہ وہ شوکت خانم کے لیے فنڈ ریزنگ میں ان کی مدد کریں۔ اور پھر نصرت فتح علی خان نے عمران خان کے ساتھ مل کر شوکت خانم کے لیے بہت زیادہ فنڈ ریزنگ کی ۔'
یوسف صلاح الدین نے بتایا 'ایک مرتبہ برطانوی شہزادی لیڈی ڈیانا پاکستان آئیں، تب عمران خان کی شادی جمائما سے ہو چکی تھی اور بین الاقوامی طور پر نصرت فتح علی خان بھی وہ مشہور ہو چکے تھے اسی لیے لیڈی ڈیانا انہیں سننا چاہتی تھیں۔ اسی سلسلے میں عمران خان نے اپنے گھر پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں نصرت فتح علی خان آئے اور پرفارم کیا۔ اس کے علاوہ برطانوی گلوکار مک جیگر بھی نصرت فتح علی خان کو سننا چاہتے تھے ان کے لیے بھی عمران خان کے گھر پر ایک محفل سجائی گئی۔ رات نو بجے شروع ہونے والی محفل صبح کے پانچ بجے تک چلتی رہی۔ پھر اس کے علاوہ ایک اور خوبصرت بیٹھک تھی شاید میری شادی کی سالگرہ تھی جس پرمیڈم نور جہاں بھی آئیں اس کے علاوہ بہت گنے چنے لوگ تھے۔'
یوسف صلاح الدین نے بتایا کہ 'موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی والدہ کے خاندان کا نصرت فتح علی خان کے خاندان سے گہرا تعلق تھا۔ یہ دونوں خاندان افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر جالندھر آ کر بسے تھے۔ جبکہ تقسیم ہند کے وقت بھی دونوں خاندان ہجرت کر کے پاکستان پہنچے جس کے بعد عمران خان کی والدہ لاہور زمان پارک میں آباد ہوئیں جبکہ نصرت فتح علی کا خاندان فیصل آباد جا بسا۔'
یوسف صلاح الدین کہتے ہیں، ' جب نصرت فتح علی خان نے پہلی بھارتی فلم کا میوزک بنایا جو ایشوریا رائے کی پہلی فلم تھی، 'اور پیار ہوگیا' اس کا سارا میوزک نصرت فتح علی خان نے یہاں میری حویلی میں بیٹھ کربنایا۔ بھارتی شاعرجاوید اختر یہاں آئے انہوں نے گانے لکھے تھے اور اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر سب آئے اور یہیں حویلی میں بیٹھ کر تین سے چار روز میں انہوں نے کام مکمل کیا۔'
بقول یوسف صلاح الدین 'نصرت فتح علی خان نے بالی وڈ کے میوزک کو بدل کر رکھ دیا، وہ اس میں پنجابی لے کر آئے ، آج تک بالی وڈ میں اردو مکس پنجابی چل رہی ہے مگر ان کی اصل پہچان اور عزت ان کی قوالی کی وجہ سے تھی۔ دنیا بھر میں صوفی میوزک سے مغربی لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں حالانکہ ان کو قوالی ان کو سمجھ نہیں آتی لیکن اس کی بیٹ اس کی لےمیں کوئی ایسی روحانی چیز ہے کہ گورے جھوم جھوم کر تھک جاتے ہیں ۔ نصرت فتح علی خان وہ واحد گلوکار ہیں جنہوں نے قوالی کو صوفی موسیقی کے طور پر تمام دنیا میں مشہور کیا۔ اس سے پہلے قوالی ہندوستان پاکستان میں گائی جاتی تھی مگر نصرت فتح علی خان نے امریکہ سے لے کر جاپان تک اسے متعارف کروایا۔ ان کی سب سے بہترین ریکارڈنگز فرانس میں ہوئیں جن کا مقابلہ ہی نہیں ہے۔ یورپ، امریکہ، فار ایسٹ میں جاکر گانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نصرت فتح علی خان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یوسف صلاح الدین نے بتایا کی وہ بہت زیادہ خوش مزاج و عاجزی پسند انسان تھے جبکہ کھانے میں خوش خوراک تھے، سبھی کچھ کھانا پسند کرتے تھے بشرطیکہ اس کا ذائقہ بہترین ہو۔
یوسف صلاح الدین کہتے ہیں: 'اکثر یہ ہوتا تھا کہ رات کے دو بجے نصرت فتح علی خان کی کال آتی کہ میں نے ایک بڑی زبردست دھن بنائی ہے اور اسے سنانے کے لیے وہ حویلی بارود خانہ آجاتے تھے اور ان کے اس طرح آنے کا جو سب سے خوبصورت پہلو تھا وہ یہ کہ جیسے ہی نصرت فتح علی خان حویلی آتے تھے اس کے آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہاں اور بہت سارے آرٹسٹ جمع ہو جاتے تھے۔ جن میں حمیرا ارشد، شبنم مجید یا اور جو اپ کمنگ ارٹسٹ تھے۔ وہ سب کو بٹھا کر ایک طرح ان کی موسیقی کی کلاس لیتے تھے اور انہیں بتاتے تھے کہ کس طرح گانا چاہیے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔'
یوسف صلاح الدین نےبتایا کہ نصرت فتح علی خان کی اہلیہ دو سال قبل انتقال کر گئیں تھیں جبکہ ان کی بیٹی ندا اس وقت کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں اور وہ ساؤنڈ انجینئیر ہیں۔
یوسف صلاح الدین نے بتایا کہ استاد نصرت فتح علی خان کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور زندگی کو مزے سے جیتے تھے۔ 'مجھے یاد ہے کہ وہ اپنا ہارمونیم ہمیشہ اپنے بستر کے پاس رکھتے تھے،ایک دن میں ان کے گھر گیا تو پوچھا کہ اسے ساتھ کیوں رکھتے ہیں تو کہنے لگے مجھے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ سوئے سوئے کوئی دھن دماغ میں آجائے تو میں اسی وقت اٹھ کر اسے بجا لیتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس زمانے میں میں خود دھنیں نہیں بناتا تھا مگر ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان کے ساتھ کافی دھنیں ترتیب دیں لیکن افسوس ہے کہ نصرت فتح علی خان کے ساتھ یہ موقع نہیں ملا۔ '