ابھی دو چار دن پہلے کی بات ہے، میں اپنی ایک عزیزہ سے کراچی میں امن و امان کی صورت حال پر بات کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا تمھارے علاقے میں راہزنی اور ڈکیتی کے واقعات نہیں ہوتے؟ کہنے لگی کہ پہلے بڑی ڈکیتیاں ہوتی تھیں پھر علاقے کے لڑکوں نے ایک دو بار چوروں کو پکڑ کر کھمبے سے باندھ دیا، آتے جاتے لوگوں نے مار لگائی اس کے بعد سے سکون ہے۔ ’اب کوئی ڈاکو کم از کم ہمارے علاقے کا رخ نہیں کرتا۔‘
وہ یہ بات معمول کے انداز میں کہہ گئی۔ یہ الفاظ سن کر ہی کسی مہذب شخص کو جھرجھری سی آجائے۔ میں نے اس رویئے پر احتجاج کیا تو کہنے لگیں کہ نجانے کتنے گھروں سے زندگی بھر کی کمائی لوٹی ہے؟ ان ڈاکوؤں نے تین رہائشیوں کی جان لی ہے،کوئی کب تک برداشت کرے۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں فوری انصاف کی یہ سوچ کوئی نئی نہیں۔ سماجی نفسیات میں ہجوم اور اس کے رویئے بڑے قریب سے سائنسی انداز میں پرکھے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ہجوم میں کسی شخص کی ذاتی حیثیت، تعلیم، خاندانی پس منظر اور شخصیت تحلیل ہو جاتی ہے۔ اسی لیے یہ ضروری نہیں کہ جرم کے مرتکب ہجوم کا ہر فرد جرائم پیشہ یا عادی مجرم ہو۔ کوئی ایک اجتماعی مقصد، اجتماعی نعرہ، اجتماعی طور پر لاحق خطرہ ایک ہجوم کو بغیر کسی پری پلاننگ کے مشتعل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں انصاف کی بھینٹ چڑھنے والے مقتولین کی فہرست خاصی طویل ہے۔ بھارت میں نچلی ذات کے دلت اور مسلمانوں کی ایک تشویشناک حد تک بڑی تعداد جان سے گئی ہے۔ کتنی ہی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ہندو انتہا پسند غنڈوں کے جتھے مذہبی الزام کو بنیاد بنا کر بھارت کی مرکزی سڑکوں پر مسلمانوں کو گھسیٹتے اور مارتے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہندو انتہا پسندوں کا غول سرعام تشدد اور قتل کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت کو اگر ’لنچستان‘ کہا جاتا ہے تو ہم بھی اس میدان میں زیادہ پیچھے نہیں۔ ہمارے یہاں بھی قانون ہاتھ میں لے کر ملزمان کو انصاف کا ذائقہ تشدد اور پھر موت کی شکل میں چکھایا جاتا ہے۔
2008 میں کراچی کے علاقے رنچھوڑ لین میں ڈکیتی ہوئی، تین ڈاکو لوٹ مار کرکے فرار ہوتے کہ پہلے ہی اہل علاقہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ رنچھوڑ لین اولڈ سٹی کراچی کا کاروباری علاقہ ہے جہاں کے رہائشی اور تاجر سخی، خوش خوراک اور نرم مزاج مانے جاتے ہیں۔ انہی لوگوں نے تین ڈاکوؤں کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا۔ درجنوں مار رہے تھے، سینکڑوں خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ ہجوم کا غصہ اس حد تک گیا کہ زخمی ڈاکوؤں کو زندہ جلا دیا۔ یہ سب کچھ ایک گھنٹے تک ہوتا رہا، اور قانون سوتا رہا۔
رنچھوڑ لین کا یہ واقعہ قانون ہاتھ میں لینے کا آغاز تھا۔ اس کے ٹھیک اگلے دن دو ڈاکوؤں کو ناگن چورنگی کے قریب زندہ جلایا گیا۔ ٹھیک دو سال بعد سیالکوٹ کے دو بھائیوں مغیث اور منیب کو سینکڑوں افراد کے ہجوم نے ناحق قتل کر دیا۔ دو گھنٹے شہر کی مرکزی سڑک اور رش والے بازار میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس ہجوم میں پولیس والے بھی تھے بال بچوں والے بھی، کم عمر لڑکے بھی اور دنیا برتے ہوئے بابے بھی تھے۔
کس کس واقعے کو یاد کریں؟ چار سال پہلے کورنگی کراچی کے رہائشیوں نے دو ڈاکو سرعام قتل کیے اس واقعے میں تو ڈاکوؤں کی جان بچانے کو آگے آنے والے دو شہری بھی پیٹے گئے۔ ابھی اگست کے پہلے ہی دن گلستان جوہر میں مویشی فروش سے ڈکیتی کرنے والے دو ڈاکو شہریوں کے ہاتھوں شدید زخمی ہوئے۔ سڑکوں پر تو جاہل اور تعلیم یافتہ دونوں ہوتے ہیں مگر مشال خان کو تو یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کے ماحول میں مشتعل لڑکوں نے تشدد سے قتل کیا۔ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو پورے محلے نے مل کر قتل کیا پھر دہکتی بھٹی میں پھینک دیا۔
ابھی چند دن پہلے خدادداد کالونی کے 15 سالہ ریحان کو چوری کے الزام میں پکڑا اور چار چھ لوگوں نے ننگا کرکے، مار مار کر ویڈیو پر اعترافی بیان لیا اور مار ڈالا۔
لکھنے بیٹھوں تو ان خون آلود واقعات سے کتنے صفحے کالے کر دوں مگر مسئلے کا حل یہ نہیں۔ ہجوم اگر اجتماعی جرم کرے تو پھر جرم کی وجہ ہجوم میں نہیں اس معاشرے کی جڑوں میں کھوجنی چاہیے۔
جب بغیر کسی قانون کے شہری لاپتہ کر دیئے جائیں، جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سربراہ پر خود ماورائے قانون قتل کے الزام ہوں، جب پولیس ڈاکو بھائی بھائی کا عمومی تاثر ہو، جب مافیا ڈان اور سیاستدان بغل گیر نظر آئیں، جب بیس بیس سال تک انصاف کے انتظار میں بےگناہ پھانسی چڑھا دیئے جائیں اور جب پولیس چیفس اور حکومتی ارکان میں اختیارات کی کھینچا تانی نظر آئے پھر کون ایسے قانون پر بھروسہ رکھے؟ کون پولیس، عدالتوں اور سزا و جزا کا انتظار کرے۔ لوگ پھر قانون کے لمبے ہاتھوں میں چوڑیاں پہنا کر انصاف کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور انصاف کے نام پر ظلم کی حد سے گزر جاتے ہیں۔
اگر نیب کے سربراہ سر سے پاؤں تک قانون و انصاف کرتے، جج ملزمان سے خفیہ ملاقاتیں کرتے، دباؤ میں فیصلے دیتے رہے اور ساہیوال کار کلنگ جیسے واقعے میں سپیشل پولیس کے اہلکار غلط اطلاعات پر ایک پورے خاندان کو موت کی نیند سلاتے رہے تو ادارے، نظام اور قانون کا احترام کیسے ہوگا؟ سائل جج پہ بھروسہ کیسے کرے گا؟ عوام کس قانون پر اعتبار کریں گے؟
ہماری عدالتیں پہلے ہی اوور لوڈڈ ہیں۔ معمولی جرائم کے کیسز بھی نمٹنے میں برسوں لیتے ہیں، متبادل نظام انصاف کے آرڈیننس آ بھی گئے مگر نفاذ نہ ہوسکا۔ جرگہ، پنچایت اور مصالحتی کمیٹیاں قانونی طور پر مثبت انداز میں اتنی فعال نہیں کہ یہ چھوٹے تنازعات کو احسن طریقے سے نمٹا سکیں۔ الٹا یہ غیرقانونی فیصلوں کی وجہ بنتی ہیں۔
کوٹ رادھا کشن کے درجنوں ملزمان پکڑے گئے، سیالکوٹ واقعے کے مجرم بھی پھانسی چڑھا دیئے گئے، کراچی میں سٹریٹ کرائمز میں کمی ہوئی اور قتل و غارت گری بھی رک گئی۔ امید ہے ریحان کو بیدردی سے قتل کرنے والے بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے مگر عدالت و انصاف کا نظام چلانے والوں، قانون نافذ کرنے والوں اور قانون سازوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کیونکہ مشتعل افراد کے پرتشدد مجرمانہ رویئے کی جڑیں ہمارے معاشرے میں ہی پنپ رہی ہیں۔