صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال کے علاقے روروم میں رواں برس فروری سے سڑک کے درمیان میں پڑے ایک بڑا پتھر متعدد حادثوں کا سبب بن چکا ہے۔
صوبے کے اس اہم ضلعے میں سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں، جن میں سے بعض میں لواحقین کو لاشیں بھی نہیں ملتیں۔
سڑک کے بیچوں بیچ پڑے اس پتھر کی وجہ سے ایک افسوس ناک واقعہ 15 جولائی کو پیش آیا، جب مبارک علی شاہ بونی کے ہسپتال میں زیر علاج اپنی اہلیہ کو لے کر پرکوسپ جا رہے تھے کہ پرواک کے قریب روروم کے مقام پر اس پتھر کی وجہ سے مسافر گاڑی کھائی میں جا گری۔
اس حادثے میں مبارک علی شاہ کی اہلیہ کے علاوہ دو نوجوان سجاد علی رئیس اور جاوید احمد جان سے گئے۔
مبارک خود بھی اس حادثے میں زخمی ہوئے۔ ایک اور نوجوان ساجد علی، جن کا تعلق جنالی کوچ سے ہے، معمولی زخمی ہوئے۔
مبارک اب تک پشاور کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کی اہلیہ کے بھائی سام علی شاہ نے بتایا کہ وہ اس واقعے کے وقت وزیرستان میں تھے۔
ان کی بہن بونی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں اور انہیں شام کے وقت ڈسچارج ہو کر گھر جانا تھا۔
بقول سام: ’شام کو میں نے اپنی بہن کو فون کیا تو وہ بند آرہا تھا۔ جب میں نے بہنوئی کے نمبر پر فون کیا تو ایک پولیس اہلکار نے اٹھایا اور بتایا کہ ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے، جس میں ان کی بیوی سمیت تین افراد جان سے جا چکے ہیں اور دو افراد زخمی ہیں۔‘
سام نے بتایا کہ یہ سنتے ہی وہ وزیرستان سے دیر پہنچے۔ ’میرے بہنوئی کو پشاور ریفر کیا گیا تھا۔ دیر سے میں بہنوئی کے ساتھ پشاور آیا۔ تب سے میں ان کے ساتھ ہسپتال میں ہوں۔
’ان کی حالت اب پہلے سے بہت بہتر ہے۔ میری بہن تو اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن بچوں کے سر پر کم از کم باپ کا سایہ تو قائم رہے۔‘
پرواک سے تعلق رکھنے والے افتخار، جن کا بھتیجا سجاد علی رئیس اس حادثے میں جان سے چلا گیا، کا کہنا ہے کہ سجاد ان کا ہم عمر اور دوست تھا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے آیا تھا کہ واپسی پر یہ حادثہ پیش آیا۔
افتخار نے بتایا: ’ہمارے ہاں قیادت کا فقدان ہے۔ اگر لیڈرشپ صحیح ہوتی تو حادثات سے بچنے میں کافی مدد مل سکتی تھی۔
’سڑک ہمارا بنیادی حق ہے لیکن ہم اس سے محروم ہیں۔ سڑک کے درمیان میں کئی ماہ سے ایک پتھر پڑا ہوا ہے، جسے بلاسٹ کرکے یا اسے نیچے پھینک کر ہٹایا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پتھر فروری میں کھسک کر سڑک پر آ گیا تھا۔ ولیج کونسل کے سابق چیئرمین اور مقامی ڈرائیور سید احمد ولی شاہ نے بتایا کہ ان کا ہفتے میں کم سے کم تین مرتبہ اس راستے سے گزر ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سات ماہ سے یہ پتھر کھسک کر روڈ کے درمیان میں آ گیا ہے لیکن ’مقامی انتظامیہ نے کبھی اس پتھر کو وہاں سے اٹھانے کی کوئی تکلیف نہیں کی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا گاؤں 400 افراد پر مشتمل ہے۔ ہم نے اپنے لیے پہاڑ کھود کر لگ بھگ تین کلومیٹر سڑک خود بنائی جو یارخون روڈ کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اب وہ بھی ملیامیٹ ہو گئی، پھر اس راستے کو بنانے کے لیے چندہ کرنا پڑے گا۔‘
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فدالکریم کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی بحالی کا کام نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے پاس ہے۔
’اس مقام پر سڑک کافی وسیع ہے لیکن پھر بھی پتھر کو وہاں سے ہٹانا ضروری ہے۔ این ایچ اے کو پہلے سے سڑکوں کی مرمت کے سلسلے میں ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ پتھر وہاں سے ہٹایا جائے۔‘
ان کا خیال تھا کہ یہ جو حادثہ پیش آیا، اس کی وجہ گاڑی کے اوپر رکھی شاید کوئی چیز تھی یا پھر گاڑی ڈرائیور سے بےقابو ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔
این ایچ اے کے نمائندے اشفاق احمد خان نے حالیہ حادثے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’یہ پتھر وہاں سے ہٹنا چاہیے تھا۔‘
بقول اشفاق خان: ’اس حادثے کے بارے میں ہمیں علم نہیں لیکن ہماری ٹیم چترال میں کام کر رہی ہے۔
’ہم اس پتھر کو وہاں سے ہٹا دیں گے اور راستہ صاف کر دیں گے۔‘