پاکستان میں گذشتہ دو تین دہائیوں سے بڑی تعداد میں نئی شاہراہوں اور موٹر ویز کی تعمیر کی وجہ سے جانوروں کے قدرتی مسکن تقسیم ہونے اور ان کے جینیاتی تنوع سکڑنے کے باعث متعدد جنگلی جانور معدومی کا شکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں حالیہ دہائیوں میں جنگلی جانوروں کے قدرتی ماحول کے قریب یا بیچوں بیچ بننے والی شاہراہوں اور سڑکوں پر جنگلی جانوروں کی گزرگاہیں بنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک حادثات میں ’ہر سال لاکھوں جنگلی جانور‘ ہلاک ہو جاتے ہیں، بلکہ جنگلی جانوروں کے جینیاتی تنوع میں کمی پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
کسی بھی جگہ پر موجود ایک ہی قسم کے جانور بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتے ہیں، جو ان کا قدرتی مسکن یا ہیبیٹاٹ ہوتا ہے۔ یہی مسکن جانوروں کو جینیاتی تنوع یا جینیٹک ڈائیورسٹی مہیا کرتا ہے، جس میں رہتے ہوئے جانوروں کو ایک چھوٹے گروپ میں نہیں بلکہ بڑے گروہ میں مخالف جنس کے متعدد جانوروں سے ملاپ کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں تو ان کے بچے تندرست پیدا ہوتے ہیں اور ان میں جینیاتی بیماریاں کم ہوتی ہیں۔
مگر جب کسی خاص قسم کے جانوروں کے قدرتی مسکن کے درمیان سے شاہراہ یا موٹر وے بنائی جائے، اور کوئی گزرگاہ بھی نہ ہو تو شاہراہ کے دونوں طرف رہنے والے جانور ایک خاص جگہ تک محدود ہو جاتے ہیں اور اس مخصوص قسم کے جانور گروہ میں بٹ جاتے ہیں اور دو علیحدہ چھوٹے چھوٹے مسکن بن جاتے ہیں، جہاں موجود اس قسم کے جانوروں کے لیے جینیاتی تنوع سکڑ جاتا ہے۔
اس کے باعث ان میں جینیاتی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور تکنیکی طور پر خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس خاص قسم کے جانوروں کی قسم اس علاقے سے ناپید ہو جائے۔
جیسے انسانوں میں خاندان میں شادی کرنے سے اندھے پن، جسمانی معذوری سمیت کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں، بالکل اسی طرح جانوروں میں ہوتا ہے۔
جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن میں شاہراہوں کے باعث پیدا ہونے والے خلل اور سکڑتے جینیاتی تنوع اور سڑک حادثوں میں ہلاک ہونے والے جانوروں پر کئی سال تحقیق کرنے والے ماہر جنگلی حیات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کے سابق ڈائریکٹر چوہدری محمد رزاق نے انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب کسی مخصوص جانور کی قدرتی مسکن کے درمیان سے کوئی شاہراہ یا سڑک تعمیر ہو جائے اور وہ جانور دو حصوں میں بٹ جائیں اور ان کا جینیاتی تنوع سکڑ جائے تو وہ گروہ زیادہ سے زیادہ 50 سال میں مکمل طور پر ناپید ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا: ’پاکستان بھر میں قدرتی مسکن کے درمیان سے سڑکوں کی تعمیر سے بھیڑیا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا جنگلی جانور ہے، جو ناپید ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ لگڑ بگے (ہائینا) گوشت خور بڑی چھپکلی (مانیٹر لزرڈ)، گوہ (بنگال مانیٹر) اسی طرح ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔‘
سڑکوں پر جنگلی جانوروں کا قتلِ عام
صرف جینیاتی تنوع کے باعث نہیں، گاڑیوں کے ساتھ ٹکراؤ کے نتیجے میں بھی شاہراہیں جانوروں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا باعث بن رہی ہیں۔
چوہدری محمد رزاق نے بتایا: ’سڑک حادثوں میں پاکستان میں ہر سال لاکھوں جنگلی جانور ہلاک ہو جاتے ہیں، جس کا سرکاری یا غیر سرکاری کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق: ’میں نے کئی سال تک روزانہ کشمیر کے مظفرآباد سے کوہالہ تک 37 کلومیٹر کا سفر کیا ہے اور ہر روز مجھے گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد ہلاک ہونے والے دو سے تین جنگلی جانوروں کی لاشیں دیکھنے کو ملیں۔ اگر روزانہ دو جانور کی ہلاکت فرض کر لی جائے تو صرف اس ایک سڑک پر سالانہ 700 سے زائد جنگلی جانور ہلاک ہوتے ہیں۔‘
چوہدری محمد رزاق کے مطابق سڑک حادثات میں ہلاک ہونے والے جنگلی جانوروں میں سیوٹ کیٹ یا مُشک بلی، اور لومڑی سب سے زیادہ ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے کہا کہ جنگلی جانوروں میں سے ممالیہ اور رینگنے والے جانور، جن کی اکثریت شکار کرنے والوں کی ہوتی ہے اور یہ جانور رات کے وقت شکار کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شکار کی تلاش میں شاہراہوں سے گزرتے ہیں اور اس طرح روڈ سے گزرتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔
’روڈ پر مرنے والوں میں اکثریت ممالیہ جانوروں بشمول جنگلی بلی، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور رینگنے والوں میں سندھ میں سب سے زیادہ سانپ ہلاک ہوتے ہیں۔ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں 2000 کے شروع میں پہلی بار بننے والی پکی سڑک کے باعث سب سے صوبے میں سب سے زیادہ جانور مرتے ہیں، کیونکہ تھر میں جنگلی جانوروں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق سندھ میں مختلف اقسام کے 326 مقامی پرندے پائے جاتے ہیں، جبکہ حالیہ سالوں میں پرندوں کی 36 نئی اقسام بھی ملی ہیں، اس طرح صوبے میں کل 352 اقسام کے پرندے ہیں۔ 107 اقسام کے رینگنے والے جانور، 22 اقسام کے پانی اور خشکی دونوں جگہ پر رہنے والے جانور پائے جاتے ہیں۔
شاہراہوں پر جنگلی حیات کی گزرگاہوں کا فقدان
بھارت، امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سمیت دنیا بھر میں سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ دونوں اطراف کے جنگلی حیات کے گزرنے کے لیے مخصوص گزرگاہیں بنائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے یا تو سڑک کے اوپر پل کی شکل یا سڑک کے نیچے سے انڈر پاس کی طرح گزرگاہ بنائی جاتی ہے، جہاں سے جنگلی جانور آسانی سے گزر جاتے ہیں، اور جانوروں کے قدرتی مسکن بٹنے سے بچ جاتے ہیں اور جانور سڑک حادثات کا شکار بھی نہیں ہوتے۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ڈپٹی کنزرویٹر جنگلی حیات محمد ثمر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سڑکوں کی تعمیر سے جہاں جنگلی جانوروں کے مسکن تک جا کر ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، وہیں شکاری بھی ان سڑکوں سے جانوروں تک رسد حاصل کر کے شکار کر لیتے ہیں۔
محمد ثمر حسین کے مطابق: ’پاکستان میں ساحل سمندر سے جنوبی پہاڑی علاقہ جات تک موجود انسانی آبادیوں کے لیے سڑک کی ضرورت ہوتی ہے، جو اقتصادی سرگرمیوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ سڑکیں جانوروں کے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی قریب سے گزرتی ہیں، اور کہیں ان علاقوں کے درمیاں سے بھی گزرتی ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر سے پہلے ان کا ماحولیاتی جائزہ لے کر تجاویز بھی دی جاتی ہیں، مگر بعد میں ان پر عمل نہیں ہوتا۔‘
انہوں نے کہا، ’میری ذاتی رائے ہے کہ پاکستان میں کسی بھی جگہ پر جنگلی جانوروں کے لیے شعوری طور پر کہیں بھی کوئی گزرگاہ نہیں بنی ہے، ہاں کسی جگہ پر پانی کے بہاؤ کے لیے کوئی راستہ رکھا گیا ہے جسے جنگلی جانور بھی گزرگاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، مگر جنگلی جانوروں کے لیے مخصوص گزرگاہوں کا فقدان ہیں، جس سے روڈ کل یا سڑکوں پر جانوروں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘