لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں واقع ایک چھوٹا سا گھر ایسا بھی ہے جہاں کچھ ایسے انسان بستے ہیں جنہیں اپنے انسان ہونے کا یقین دلانے کے لیے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس ساری تگ و دو کے پیچھے ان لوگوں کا مقصد صرف اور صرف خود کو اور اپنے جیسوں کو ایک نئی پہچان دینا ہے اور معاشرے کو یہ بتانا ہے کہ وہ مختلف ضرور پیدا ہوئے ہیں مگر ان کا دل، جذبات اور ان کی فطری استعداد بالکل عام انسانوں جیسی ہی ہے۔ ضرورت ہے تو بس اتنی کہ یہ معاشرہ انہیں قبول کرے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کرے۔
’کونڈا چاری‘ خواجہ سراؤں کی لغت میں کھانا کھانے کو کہتے ہیں۔ مارچ 2019 میں خواجہ سرا سوسائٹی (کے ایس ایس) کے اراکین نے مل کر کونڈا چاری کے نام سے گھر کے پکے ہوئے کھانے کی دفاتر میں ڈیلیوری کا کام شروع کیا۔
چھ فٹ سے بھی لمبی صائمہ بٹ جنہیں ویسے تو میک اپ کا شوق ہے اور وہ لوگوں کو بنانے سنوارنے کا کام بھی سیکھ چکی ہیں مگر ان کی اصل پہچان مزیدار کھانے بنانا ہے۔ یہ کونڈا چاری کی شیف ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صائمہ بٹ نے بتایا کہ وہ 2012 سے کے ایس ایس کی رکن ہیں اور کونڈا چاری کا خیال انہیں اس لیے آیا کیونکہ معاشرے میں خواجہ سراؤں کی ایک ہی پہچان ہے کہ وہ صرف ناچ گانا کرسکتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اُن میں بھی وہی سب کچھ کرنے کی استعداد ہے جو ایک عام انسان کر سکتا ہے۔
کونڈا چاری سروس شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ خواجہ سراؤں کو کام کرکے کمانے کا آئیڈیا دیا جائے اور ان کے حوالے سے معاشرے کو ایک نئی سوچ دی جاسکے۔ صائمہ نے بتایا کہ ہر ہفتے کا ایک مینیو ہے جس میں دال چاول، سبزی اور گوشت کے علاوہ میٹھا اور سلاد بھی بنایا جاتا ہے۔ ایک دن کے کھانے کی قیمت 110 سے 135 روپے تک ہے جبکہ کھانے کی ڈیلیوری کے کوئی پیسے نہیں لیے جاتے۔ اس کے علاوہ گھروں میں کوئی فنکشن ہو تو اس کے لیے بھی کھانا پکانے کی سروس مہیا کی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کونڈا چاری کا ایک فیس بک پیج بھی ہے جس کے تقریباً ایک ہزار رکن ہیں۔ صائمہ کہتی ہیں کہ ان کے کھانوں کے آرڈرز دن بدن بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ جو لوگ ان کے کھانے کی ڈیلیوری لیتے ہیں وہ دیگر لوگوں سے جب ان کی تعریف کرتے ہیں تو ان کے گاہکوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کھانا روز مرہ کی بنیاد پر بھی آرڈر کیا جاسکتا ہے یا پھر ہفتہ وار اور ماہانہ پیکج بھی لیا جاسکتا ہے جس میں کھانا آپ کے دفتر، دکان یا گھر کے دروازے تک پہنچایا جاتا ہے۔ آرڈر لاہور کے کسی بھی علاقے سے ہو کونڈا چاری کا رائیڈر کھانا پہنچا کر آتا ہے۔ ہاں ٹریفک یا بارش کی وجہ سے چند منٹوں کی تاخیر قابل معافی ہوتی ہے۔
بہت کھل کر اور دل سے ہنسنے والی صائمہ نے کھانا پکانا اپنی والدہ سے سیکھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے کھانے میں ہر چیز کا ذائقہ کھانے والا الگ الگ محسوس کرتا ہے۔ صائمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں: ’لوگ کسی بڑے ریستوران میں بھی جائیں تو کھانے کے معیار کے بارے میں دس بار سوچتے ہیں۔ اسی طرح لوگ ہمارے کھانے کے بارے میں بھی سوچتے تھے کہ پتہ نہیں کھانا کیسا ہو؟ لیکن پھر جیسے جیسے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہمارا کھانا صاف ستھرا اور مزیدار ہے تو چیزیں بہتر ہوتی چلی گئیں اور مزید بہتری کی بھی امید ہے۔‘
صائمہ بٹ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کام سے بہت خوش ہیں کیونکہ لوگ ان سے خوش ہیں۔ ان کے خیال میں: ’لوگوں کے رویے میں مثبت تبدیلی آرہی ہے اور وہ اب اس بات کو مان رہے ہیں کہ خواجہ سرا کا کام صرف ناچ، گانا یا مانگنا نہیں بلکہ ان میں اور بھی بہت سے ہنر چھپے ہیں۔ جب وہ مجھے اور میرے دیگر ساتھیوں کو دفتر میں بیٹھ کر کام کرتا دیکھیں گے تو یقیناً ان کی سوچ اور رویے میں تبدیلی آئے گی اور آرہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ اور مواقع مل رہے ہیں۔‘
صائمہ کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ باقی خواجہ سرا کمیونٹی کو بھی شعور دیا جائے کہ وہ بھی غلط کام چھوڑ کر صحیح راستہ اپنائیں مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ان کا کام مثال بن کر دکھانا اور سمجھانا ہے، سوچنا تو باقیوں کو خود پڑے گا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں انہیں یقین ہے کہ صحیح راستے میں ہی برکت اور نجات ہے۔
خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر پروگرام مون علی جنہیں لوگ ماہ نور علی کے نام سے بھی جانتے ہیں، یونیورسٹی گریجویٹ ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کی خواجہ سرا سوسائٹی خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کے لیے کام کر رہی ہے جس میں ان کی صحت، معیشت، ان سے جڑی غلط سوچ کو کم کرنے اور انہیں معاشرے کا ایک فعال رکن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مون علی کہتی ہیں کہ کونڈا چاری ایک ایسا معاشی ماڈل ہے جس کے ذریعے ہم خواجہ سرا کمیونٹی کو با اختیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہم ان کے ہنر کو سامنے لا کر یہ بتا سکیں کہ خواجہ سرا یہ کام بھی کرسکتے ہیں، کیونکہ خواجہ سرا کمیونٹی ہی وہ کمیونٹی ہے، جن کا شمار غیر مراعات یافتہ طبقے میں ہوتا ہے۔ ان کے پاس وہ مواقع نہیں ہوتے جو ایک عام آدمی یا عورت کے پاس ہوتے ہیں۔ اس لیے اس ماڈل کے ذریعے ہم اُن خواجہ سراؤں کو جو فنکشن کرتے ہیں یا مانگتے ہیں، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اس معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔