رواں سال ہونےوالی ڈیجیٹل مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق بلوچستان کی آبادی سوا دو کروڑ تھی، لیکن وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جن شماریات کی منظوری دی گئی اس کے مطابق صوبے کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ ظاہر کی گئی ہے۔
ان اعداد و شمار کو بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے صوبائی سوشل میڈیا سیکریٹری سعد دہوار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہماری جماعت نے مشترکہ مفادات کونسل کے اس فیصلے کو مسترد کر کے اس کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ اس فیصلے نے ہمیں حیرت زدہ کر دیا کہ کس طرح ہماری 67 لاکھ کی آبادی کو کاٹ دیا گیا۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں رواں سال ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے عبوری نتائج میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی آبادی سوا دو کروڑ کے قریب بتائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا: ’اتنی بڑی آبادی کو مردم شماری سے نکال دینا قابل قبول نہیں۔ چارپانچ لاکھ کی سمجھ آتی ہے، لیکن یہ تعداد بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اس کے بعد دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کےعلاوہ قانونی طور پر بھی اس کو چیلنج کریں گے۔‘
سعد کہتے ہیں کہ ’سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ23 لاکھ ظاہر کی گئی تھی، اس وقت بلوچستان میں خشک سالی، آواران میں زلزلہ اور عسکریت پسندی کے حالات کے باعث ہماری بہت سی آبادی نے بھی نقل مکانی کر لی تھی، سیاسی جماعتوں نے مردم شماری پر تحفظات کے باوجود اس کو چلنے دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس اور اس کے فیصلے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کو سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ایک تو یہ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں، جس طرح نگران حکومت کے لیے انہوں نے آرٹیکل 370 کو چھیڑا ہے، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں جس طرح اختیارات دیے گئے، دوسرا یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے، اس کے سیاسی اثرات کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا۔‘
سعد کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کو ہمیشہ سٹریٹجک نظر سے دیکھا گیا ہے۔ ہم یہی کہتے ہیں کہ بلوچستان کو سیاسی تناظر میں دیکھا جائے۔ اس کے خلاف ہمارے ساتھیوں نے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اسے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر چیلینج کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نیشنل پارٹی سمیت بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس فیصلے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے سیاسی مفادات کے لیے بلوچستان کو قربانی کا بکرابنایا گیا۔
’ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کم آنا سمجھ سے بالاتر ہے، سب جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ اس کے خلاف مشترکہ احتجاج کیا جائے۔ صرف لائحہ عمل کی تیاری کی جا رہی ہے، جلد ہی ہم سب مل کر قانونی طریقے سے اس کے خلاف مہم شروع کریں گے۔‘
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینٹرل ایگز یکٹیوکمیٹی کا دو روزہ اجلاس پانچ اور چھ اگست 2023 کو پارٹی کے مرکزی صدر سردار اختر جان مینگل کی زیر صدارت ویڈو لنک کے ذریعے منعقد ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جماعت کے جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کا جائزہ لیا گیا۔ جس میں بلوچستان کی آبادی کو ’دانستہ طور پر کم کر کے عوام کو ایک بار پھر ان کے حقوق سے محروم رکھنے کی گھناﺅنی سازش‘ قرار دیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’بی این پی یہ فیصلہ کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرے گی اور نہ کسی کو بلو چستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے گی۔
’وفاقی حکومت کے اتحادی ضروری ہیں مگر بلوچستان اور بلوچ عوام کے قومی اجتماعی مفادات کے خلاف کسی بھی صورت میں خاموشی اختیار نہیں کریں گے اس نا انصافی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
پریس ریلیز کے مطابق اجلاس کے دوران بی این پی کی قیادت کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کی آبادی دو کروڑ 47لاکھ سے کم کر کے صوبے کی آبادی کو کم کر کے ایک کروڑ 48 لاکھ کردیا گیا ہے۔ جو ناقابل قبول ہے۔
’اس سلسلے میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ کی سربراہی میں چار کنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کر کے اس نا انصافی کے خلاف مشترکہ طور پرجدوجہد کرے گی۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کے آخری اجلاس کے دوران صوبائی وزیر اسداللہ بلوچ نے مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کم کرنے کے خلاف قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈیجیٹل مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی دو کروڑ سے زائد تھی، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بلوچستان کی مردم شماری کم کر دی گئی۔‘
بلوچستان اسمبلی نے مردم شماری میں صوبے کی آبادی کم ظاہر کرنے کے خلاف مشترکہ مذمتی قرارداد بھی منظور کی۔