پاکستان کی قانون ساز اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کر رہی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے نو اگست کو حکومت تحلیل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن ان پانچ برسوں میں بھی گذشتہ ادوار کی طرح وزیراعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہ کرسکے۔
موجودہ اسمبلی کے پہلے وزیراعظم عمران خان کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا اور شہباز شریف اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے وزیراعظم بنے۔
وفاقی کابینہ کا آج اسلام آباد میں الوداعی اجلاس متوقع ہے جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ آج صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے خط لکھیں گے۔
اگر ماضی کا جائزہ لیں تو 1999 میں آخری مارشل لا نافذ ہوا تھا جب منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2002 میں عام انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ ق برسر اقتدار آئی۔
منتخب اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی لیکن منتخب وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہ کر سکے۔ انتخابات کے نتائج کے بعد میر ظفراللہ خان جمالی وزیراعظم کو بنایا گیا لیکن جون 2004 میں منتخب وزیراعظم نے استعفٰی دے دیا جس کے بعد صدر پاکستان پرویز مشرف نے شوکت عزیز کو پاکستان کا وزیراعظم بنایا۔
منتخب اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے بعد اگلی حکومت 2008 میں پیپلز پارٹی کی بنی لیکن اس حکومت کے بھی منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی مدت مکمل نہ کر سکے۔
سپریم کورٹ نے انہیں توہین عدالت کی سزا دی، سزا یافتہ ہونے کے بعد یوسف رضا گیلانی نااہل قرار دے دیے گئے۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم منتخب کیا۔ اسمبلی نے آئینی مدت 2013 میں مکمل کی۔
مئی 2013 میں ن لیگ برسراقتدار آئی اور 2018 میں اسمبلی نے آئینی مدت مکمل کی۔ لیکن 2017 میں پانامہ لیکس کے مقدمے میں سزا پانے پر منتخب وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا جس کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر چند اراکین پارلیمنٹ سے بات کر کے ان کی رائے معلوم کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی و وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’چار اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں اس سے قبل اسمبلیاں ٹوٹتی رہی ہیں۔ مداخلت ہوتی رہی ہے دو یا تین سال بعد اسمبلی فارغ ہو جاتی تھی فوجی مداخلت بھی ہوتی رہی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’20 سالوں میں جمہوریت کی بنیاد مضبوط ہوئی ہے۔‘
موجودہ اسمبلی کی مدت پر انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ حکومت نے پاکستان کی جمہوری کاوش کو زائل کیا اور اب معاشی اور سیاسی طور پر پھر ازسرنو بحالی کرنی پڑ رہی ہے۔‘
جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر کہا کہ ’اس اسمبلی نے نہ کوئی اسلام کی خدمت کی ہے اور نہ ملک کی خدمت کی ہے نہ عوام کی۔ یہاں اب جتنی بھی قانون سازی کی گئی ہے وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔‘
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی صلاح الدین نے کہا کہ ’موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے میں بہت نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے یکسوئی سے کام کا موقع نہیں ملا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسمبلی نے مدت پوری کی ہے لیکن حکومت مدت پوری نہ کر سکی۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما و رکن اسمبلی خالد مگسی نے کہا کہ ’وقت گزر گیا ہے لیکن یہ اتنا اچھا وقت نہیں تھا مشکلات تھیں۔‘
انہوں نے کہا ’ہمیں ادراک تو تھا لیکن ہم کچھ کر نہیں پا رہے تھے مشکل فیصلے کرنے پڑے اور ہمیں بھی ساتھ دینا پڑا۔‘
پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی ناز بلوچ نے کہا کہ ’حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے اسمبلی کے بہت مشکل حالات تھے۔ معاشی استحکام نہیں تھا۔ موجودہ حکومت نے اپنے آخری عرصے میں معیشت کو سہارا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ اسمبلی میں خواتین اور بچوں کے متعلق بہت قانون سازیاں کی گئیں۔‘
قومی اسمبلی کے آخری دن آخری روایتوں میں سے ایک آج اراکین گروپ فوٹو بھی بنائیں گے۔