چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو گذشتہ ہفتے توشہ خانہ کیس میں سزا سنانے والے اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ سیشن جج ہمایوں دلاور اس وقت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے جج اس وقت ایک تربیتی کورس میں حصہ لینے کی غرض سے برطانیہ کی ہل یونیورسٹی کے دورے پر ہیں۔
سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جج ہمایوں دلاور اپنے حلقے میں ایک ایماندار اور مضبوط عدالتی افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ہمایوں 2015 سے مختلف عدالتی امور انجام دے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور سابق جج سپریم کورٹ جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد خان کے عزیز ہیں۔
راجہ ارشد نے کہا کہ ایسا فیصلہ ایک مضبوط اعصاب کا جج ہی دے سکتا تھا۔ ’اگرچہ ہمایوں دلاور سے طریقہ کار کی غلطیاں ہوئیں لیکن ان کا فیصلہ اپنی جگہ پر شفاف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح آج کل وکلا ججوں پر دباؤ ڈالتے ہیں ایسی صورت حال میں ججوں کے لیے عام سے مقدمے کا فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمایوں دلاور نے انتہائی مشکل صورت حال میں فیصلہ دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ ایک مضبوط انسان ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی بہت سی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر پاکستان تحریک انصاف کے حامی کس طرح انہیں ہراساں کر رہے ہیں۔ کچھ ویڈیوز میں ان کے لیے انتہائی غیراخلاقی زبان بھی استعمال کی گئی ہے۔
اس حوالے سے برطانیہ کے مقامی اخبار ہل ڈیلی میل نے بھی احتجاج کے بارے میں ایک خبر شائع کی۔ خبر میں اس درس گاہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’یونیورسٹی آف ہل 2014 سے پاکستانی ججوں کے لیے انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی تربیت کر رہی ہے۔ موجودہ تربیتی کورس کے لیے آنے والے ججوں کا انتخاب اسلام آباد اور پشاور کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں یونیورسٹی کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہل ڈیلی میں یہ بھی لکھا گیا کہ جج ہمایوں دلاور یونیورسٹی میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے تربیتی کورس میں شرکت کر رہے ہیں۔ عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات میں سزا سنائے جانے کے فورا بعد وہ برطانیہ چلے گئے تھے۔
ہل ٰڈیلی میل کی خبر کے مطابق پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو جیل بھیجنے والے جج کے دورے کے خلاف منگل کو یونیورسٹی آف ہل کے باہر مظاہرین جمع ہوئے۔
جج کے ساتھ کیا یہ سلوک جائز ہے؟
اس حوالے سے ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور رکن پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ نے انڈپینڈٹ اردو سے اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے کہا: ’یہ انارکی ہے، یہاں ہزاروں مقدموں کے روز فیصلے ہوتے ہیں کیا جس کے خلاف فیصلہ ہو وہ جلوس نکالے، اس کامطلب تو یہ ہے کہ ہم سب قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمایوں دلاور نے ایک فیصلہ دیا جس کے خلاف آپ کے پاس اپیل کا حق موجود ہے۔ آپ اپیل کریں فیصلہ غلط ہو گا تو ختم ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے معاشرے پر جو ظلم کیا وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس دماغ نام کی چیز نہیں ہے وہ ہر معاملے پر شور کرنے نکل جاتے ہیں۔ ’نہ انہیں قانون کا علم ہے نہ عدالتوں کے تقدس کا ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔‘
ایڈوکیٹ سپریم کورٹ سابق جج ہائی کورٹ اور سابق اٹارنی جنرل شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کوئی بھی جج کسی بھی لیول کا ہو آپ ان کے فیصلے پر تو تنقید کر سکتے ہیں لیکن ان کے اس فیصلے کے حوالے سے ان کی ذات پر تنقید نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس اپیل کا حق موجود ہے۔
’اگر ہائی کورٹ واقعی یہ دیکھے کہ انہیں ڈیو پراسیس اور ڈیفنس کا پورا موقع نہیں دیا گیا تو ایسی صورت میں وہ فیصلے کو کالعدم کر کے جج کو ریمانڈ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ اس کیس کو دوبارہ دیکھیں یا کوئی اور جج اس کیس کی سماعت کرے۔‘
ان کے مطابق مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ اگر آپ کی پسند کا فیصلہ نہ آئے تو آپ سوشل میڈٰیا پر ان کی ٹرولنگ شروع کر دیں یا گالیاں دینا شروع کر دیں۔
’وہ اگر کسی دوسرے ملک میں ٹریننگ لینے گئے ہیں تو آپ وہاں ان کی گاڑیاں روکیں اور ان کی بے عزتی کریں۔
’جس ملک میں آپ یہ سب کر رہے ہیں وہاں لوگ کیا سوچتے ہوں گے کہ ہم اپنے ججوں کے لیے کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں؟ یہ آپ کے اپنے ملک کی بدنامی ہے۔‘
کیا ماضی میں ایسی مثال ملتی ہے؟
اس حوالے سے ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور رکن پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف ایک مہم چلی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ظلم ہو گیا کہ انہیں غدار قرار دے دیا گیا۔‘
اس کے علاوہ اس وقت کے وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور اٹارنی جنرل نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی۔
سید امجد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھی ججوں کو گالیاں نہیں دی گئیں۔ ’ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے ججوں کو امیونٹی حاصل ہے وہ غلط فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل داخل کر دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ سے عمران خان کی بریت کی صورت میں کیا نون لیگ والے اس جج کے خلاف شروع ہو جائیں گے۔ ’ان کے دروازے پر نعرے ماریں، ان کے بچوں کو سکول نہ جانے دیں اور انہیں باہر نہ نکلنے دیں۔ یہ تو معاشرے کی تباہی کی طرف ہم چلے جائیں گے۔‘
ایڈوکیٹ سپریم کورٹ شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ماضی میں بہت سے ایسے فیصلے ہوئے جو ہمیں بھی معلوم تھا کہ غلط ہوئے، ہم ان پر تنقید کرتے ہیں لیکن ایک جائز حد تک۔
’جب تنقید تضحیک میں تبدیل ہو جائے تو پھر آپ لائن کراس کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بھی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’بھٹو صاحب نے کبھی گالی نہیں دی وہ یہ ضرور کہتے تھے کہ آپ جانبدار ہیں۔
’یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا تھا تو کیا پیپلز پارٹی نے حملے کرنے شروع کر دیے یا ان ججوں کے خلاف ٹرینڈز چلانے شروع کر دیے تھے، یہ خطرناک ٹرینڈ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک غیر منظم معاشرہ بنتے جارہے ہیں جہاں جس کے منہ میں جو بات آتی ہے وہ کر دیتا ہے۔
’اب سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈ چلا ہے اس میں کسی ٹویٹ پر آپ اپنی رائے کا اظہار کر دیں تو وہ آپ کا کیا حشر کریں گے یہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ‘