توشہ خانہ کیس: عمران خان اٹک جیل منتقل، پارٹی کارکنان کا احتجاج اور ’گرفتاریاں‘

پی ٹی آئی انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پارٹی کی سربراہی کریں گے۔

اسلام آباد کی ایک سیشن کورٹ سے ہفتے کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا پانے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو اٹک کی ضلعی جیل منتقل کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر زلفی بخاری اور عمران خان کے وکیل علی اعجاز بٹر نے ان کی اٹک جیل منتقلی کی تصدیق کی ہے۔

اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے آج عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانےکی سزا سنائی، جس کے بعد انہیں لاہور میں زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کے بعد بذریعہ موٹروے اسلام آباد لایا گیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی تفصیلات جمع کروائیں اور وہ کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے۔‘

عمران خان کے وکلا نے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس میں ایک درخواست دائر کی ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کو پولیس نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ عمران خان کو اغوا کیا گیا کیونکہ پولیس کے پاس گرفتاری کا عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے۔

درخواست میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی انٹرنیشنل میڈیا کے کوآرڈینیٹر احمد جواد کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے۔

وارنٹ جاری:

فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو عمران خان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے سزا کے وارنٹ جاری کر دیے۔

عدالت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد، سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کو وارنٹ بھجوائے گئے ہیں۔

وارنٹ کے مطابق جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مجرم کو مزید چھ ماہ قید کاٹنا ہوگی۔

وارنٹ میں مزید کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد کو چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل بھجوانے کا اختیار دیا جاتا ہے اور سپریٹنڈ اڈیالہ جیل کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ مجرم عمران خان کو اڈیالہ جیل میں اپنی تحویل میں رکھیں۔‘

عمران خان کا پیغام:

پی ٹی آئی میڈیا سیل نے عمران خان کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’جب تک یہ پیغام آپ تک پہنچے گا مجھے یہ گرفتار کر چکے ہوں گے اور میں جیل میں ہوں گا۔‘

ویڈیو میں عمران خان نے عوام سے اپیل کی کہ ’آپ نے گھروں میں نہیں بیٹھنا، یہ جدوجہد میں آپ کے لیے کر رہا ہوں۔‘

’پرامن احتجاج کی کال‘

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے ’پرامن احتجاج‘ کی کال دی ہے۔ 

ترجمان پی ٹی آئی کے ایک بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ایک جعلی ٹرائل کے ذریعے فیصلہ سنایا گیا۔

بیان کے مطابق ’دستور پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، تحریک انصاف کے کارکن اس ظلم و استبداد اور بے انصافی کے خلاف احتجاج کریں گے۔

’تحریک انصاف اپنے چیئرمین کی تلقین و ہدایات کی روشنی میں مکمل طور پر پرامن اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرے گی۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’تحریک انصاف کے ذمہ داران چیئرمین کی ہدایات کی روشنی میں سفّاک امپورٹڈ سرکار کے ہاتھوں گرفتار ہوئے بغیر سیاسی و تنظیمی حکمتِ عملی آگے بڑھائیں گے۔‘

کارکن گرفتار

لاہور سے نامہ نگار ارشد چوہدری نے ایس پی محمد حمزہ کے حوالے سے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر زمان پارک سے چار پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کر کے تھانہ ریس کورس میں بند کردیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نے سیشن عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے متعصب فیصلہ قرار دیا۔

عدالتی کارروائی

سیشن جج نے آج دو مرتبہ سماعت میں وقفہ لینے کے بعد 12 بجے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ساڑھے 12 بجے فیصلہ سنائیں گے۔

محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ ’ملزم نے اثاثے جان بوجھ کر چھپائے، تحائف سے متعلق غلط بیانی کی، جس سے بددیانتی ثابت ہوتی ہے۔‘

فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل سیشن جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے وکلا کے پیش ہونے کے لیے سماعت میں دو بار وقفہ لیا تاہم عمران خان کے وکلا عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کا کہنا تھا کہ متعدد بار کیس کال کیا گیا لیکن ملزم کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا۔

سماعت 12 بجے دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ ’نیب کورٹ میں ہمارا بندہ ساڑھے 11 بجے گیا تھا۔ نیب کورٹ نے بتایا کہ نہ ملزم پیش ہوا ہے نہ کونسل پیش ہوا ہے۔‘

وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ ’اس عدالت سے غلط بیانی کی گئی، عدالت کو بتایا گیا تھا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں۔‘

لاہور ہائی کورٹ بار کے عہدے داروں کی مذمت

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اشتیاق احمد خان، نائب صدر ربیعہ باجوہ اور دیگر عہدے داروں نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد نے چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو جس عجلت میں سزا سنائی وہ فیئر ٹرائل اور متعلقہ قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے اور سزا سناتے وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بھی نظر انداز کیا گیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’چیئرمین تحریک انصاف کو صفائی کے حق سے محروم کر کے یہ فیصلہ سنایا گیا جو افسوس ناک ہے۔

’اس طرح جلد بازی اور قانون کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فیصلے کے درپردہ قوتیں ہیں جو ملک میں جمہوری نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتیں۔‘

’اس بات پر بھی تشویش ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جو سیاست دان اس عمل کا ساتھ دے رہے ہیں وہ اس چیز کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ آئندہ انہیں بھی غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

’پاکستان میں جمہوری ، سیاسی ، عدالتی نظام میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی سیاہ تاریخ ہے اور یہ عمل جاری ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کی کارروائی

عمران خان کے خلاف جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دینے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے دائر درخواستوں میں سابق وزیراعظم کے خلاف اس مقدمے میں فوجداری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو سیشن کورٹ سے کیس دوبارہ سن کر فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔

دوسری جانب توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے گذشتہ روز کے فیصلوں کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

چئیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے۔ 

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا درخواستوں پر فیصلہ درست نہیں، اس کا جائزہ لیا جائے۔‘

درخواست کے مطابق ’جج ہمایوں دلاور کیس کے قابل سماعت ہونے پر اپنا مائینڈ دے چکے ہیں، دوبارہ قابل سماعت کا معاملہ جج ہمایوں دلاور کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ ہائی کورٹ کا جج ہمایوں دلاور و معاملہ ریمانڈ کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔‘

اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہفتہ کو سماعت کے آغاز میں جب ملزم کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا تو جج نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ موجود ہیں، آپ ہی کچھ کہہ دیں، کوئی شعر ہی سنا دیں۔‘

جس پر وکیل امجد پرویز نے عدالت میں ’وہ ملا تو صدیوں کے بعد میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا۔۔ اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا‘ شعر پڑھ کر سنایا۔

شعر سننے کے بعد جج نے کہا کہ ’انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مزید وقت دے دیتے ہیں۔‘ جس کے بعد کیس کی سماعت میں ساڑھے 10 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔

سماعت دوبارہ شروع ہونے کے بعد وکیل پی ٹی آئی خالد یوسف چوہدری نے کہا کہ خواجہ حارث نیب کورٹ میں ہیں کچھ وقت دیا جائے۔ 

جج نے ملزم سے متعلق استفسار کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث ملزم کے حوالے سے عدالت کو بتائیں گے۔

جج نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ ’آپ نے کہا خواجہ حارث نیب کورٹ میں مصروف ہیں، وہاں کیا مصروفیت ہے؟‘

وکیل نے کہا خواجہ حارث ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ نیب کورٹ میں انہوں نے اڑھائی بجے کا وقت لیا ہے۔ وہ نیب کورٹ سے فری ہو کر آئیں گے۔

جج نے کہا ’اگر وہ دیر رات فارغ ہوتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟‘

’عدالت نے ساڑھے آٹھ بجے پیش ہونے کا کہا تھا، اس وقت ساڑھے دس بجے کا وقت ہو چکا ہے، عدالت کیس کی سماعت میں 12 بجے تک وقفہ کیا جاتا ہے۔ لیڈ کونسل 12 بجے حاضری یقینی بنائیں بصورت دیگر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔‘

سماعت شروع ہونے سے قبل اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات نظر آ رہے ہیں۔

جہاں ایک جانب پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ایف سی اہلکار تعینات ہیں وہیں دوسری جانب کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ بکتر بند قیدی گاڑی بھی کچہری پہنچا دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ جج ہمایوں دلاور کے کمرہ عدالت کے باہر پولیس کی نفری تعینات ہے جبکہ ساتھ ہی واک تھرو گیٹ نصب کیا گیا ہے۔

کمرہ عدالت کے اردگرد خار دار تاریں بچھائی گئی ہیں جبکہ ان وکلا اور صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی ہے جن کے نام لسٹ میں موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان