راکاپوشی گلیشیئر سے ملنے والی لاپتہ لاش حکام کے حوالے

ڈپٹی کمشنر ضلع نگر کے مطابق اس لاپتہ لاش کے حوالے سے دو دعوے سامنے آئے ہیں۔

15 جولائی، 2023 کو گلگت بلتستان قراقرم رینج میں واقع بیس کیمپ (جو سٹینسن / اے ایف پی)

پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کی وادی نگر میں واقع راکاپوشی گلیشیئر پر ملنے والی ایک لاش کو ہفتے کے روز پہاڑ سے اتار کر متعلقہ مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر ضلع نگر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں لاش کی حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ لاش کے بارے میں دو دعوے سامنے آئے ہیں، ایک میں کہا جا رہا ہے کہ یہ 1984 میں چوٹی سر کرنے کی مہم کے دوران گرنے کے بعد لاپتہ ہونے والے آسٹرین کوہ پیما کی ہے۔

اس کوہ پیما کا ذکر امریکن الپائن کلب کے ایک مضمون میں بھی موجود ہے۔

ڈپٹی کمشنر دفتر کے مطابق دوسرا دعویٰ ایک مقامی پورٹر نے کیا ہے جس کے مطابق یہ لاش ان کے والد سلطان اللہ بیگ کی ہے، جو 1985 میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ گئے تھے اور پھر لاپتہ ہوگئے۔

سلطان اللہ بیگ کے حوالے سے امریکن الپائن کلب کے مضمون میں بھی ذکر موجود ہے کہ وہ پہلی مرتبہ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ راکاپوشی کو شمال مغربی روٹ سے سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

نگر پولیس کے اہلکار گل عباس نے بتایا کہ یہ لاش ایک مقامی شخص کو راکاپوشی پہاڑ پر گلیشیئر میں ملی، جو برف پگھلنے کی وجہ سے سامنے آ گئی۔ 

گل عباس کے مطابق لاش جہاں پڑی ہے، وہاں دشوار گزر راستوں کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں اور پولیس کو پہنچنے میں ایک دن لگے گا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ’لاش کسی مقامی شخص کی نہیں ہو سکتی۔ یہ کسی غیر ملکی کوہ پیما کی ہو سکتی ہے جو راکاپوشی سر کرنے کے لیے گیا تھا۔‘

سوشل میڈیا پر کچھ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ یہ لاش 1984 میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والے لاپتہ کوہ پیما کی ہے۔ 

اس حوالے سے نگر کے سپریٹینڈنٹ آف پولیس(ایس پی) عبدالقیوم نے بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ لاش کس کی ہے، لیکن غالب امکان ہے کہ لاش کسی غیر ملکی کوہ پیما کی ہے۔ 

عبدالقیوم کا کہنا تھا ’پولیس اور ریسکیو کی جانب سے لاش تک پہنچنے اور اس کو نیچے لانے کے بعد تفتیش میں پتہ لگے گا کہ لاش کس کی ہے۔‘

راکاپوشی کو جنوب سے پہلی مرتبہ آسٹریا کی ایک ٹیم نے، جس کی سربراہی مشہور کوہ پیما ایڈورڈ کوبل موئر کر رہے تھے، 1985 میں سر کیا تھا۔

کوہ پیمائی کے حوالے سے تحقیقی مضامین شائع کرنے والے ہمالیہ پوسٹ جریدے کے مطابق کوبل موئر اور ان کی ٹیم نے راکاپوشی سے متصل دیران چوٹی اور بعد میں راکاپوشی جنوب طرف سے پہلی مرتبہ سر کی تھی۔

امریکن الپائن کلب کے مطابق 1985 میں آسٹرین مہم میں شامل ایک کوہ پیما فیلنر کی دوران واپسی گرنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی تھی۔

راکاپوشی پر 1984 میں لاپتہ پاکستانی کوہ پیما 

امریکن الپائن کلب کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون کے مطابق راکاپوشی کو شمال مغربی راستے سے کچھ غیر ملکی کوہ پیماؤں نے سر کرنے کی کوشش کی اور اس ٹیم میں پاکستان کے سلطان اللہ بیگ بھی شامل تھے۔

مضمون کے مطابق خراب موسم کے باعث کچھ کوہ پیما نیچے جا رہے تھے لیکن سلطان اللہ بیگ نے اکیلے نیچے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ دوستوں کو چوٹی سر کرنے کی خوش خبری جلدی سنا سکیں اور واپسی کے دوران وہ کیمپ ٹو اور کیمپ ون کے درمیان گر کر کر لاپتہ ہوئے تھے اور ان کی لاش پانچ دنوں کے سرچ آپریشن کے باوجود نہیں ملی تھی۔

راکاپوشی پہاڑ 

راکاپاشی کا مطلب ہے برف سے ڈھکا ہوا جبکہ راکاپوشی کے مداح اس پہاڑ کو ’مدر آف مسٹ‘ یا مدر آف کلاؤڈز بھی کہتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلگت بلتستان کے ایپریکوٹ ٹورز، جو راکاپوشی مہمات کا انتظام کرتے ہیں، کے مطابق راکاپوشی کی سطح سمندر سے اونچائی 25 ہزار 551 فٹ ہے اور یہ دنیا کی 27 ویں اور پاکستان کی 12 ویں اونچی چوٹی ہے۔

راکاپوشی قراقرم رینج میں واقع دنیا کا واحد ایسا پہاڑ ہے جو بیس کیمپ سے لے کر سب سے اونچی چھ ہزار میٹر کی چوٹی رکھتا ہے اور اس کو سر کرنا کوہ پیماؤں کے مطابق مشکل کام ہے۔

ایپریکوٹ ٹورز کے مطابق راکاپوشی پر پہلی کامیاب مہم 1958 میں برٹش پاکستانی فورسز کے کوہ پیماؤں کی تھی، جس کی سربراہی مائک بینکس اور ٹام پیٹی کر رہے تھے۔

مہم میں حاضر سروس آرمی، نیوی، میرین، ایئر فورس کےافسران کے نو افراد شامل تھے۔  

راکاپوشی مہمات کی انتظامی کمپنی روپال کے مطابق اس پہلی مہم میں دونوں کوہ پیما فراسٹ بائٹ (شدید ٹھنڈ سے جسم کے حصے کا زخمی ہوجانا) سے متاثر ہوہے تھے جبکہ ایک کوہ پیما کی اس مہم سے واپسی کے دوران گرنے کی وجہ سے موت واقع ہوئی تھی۔ 

ہمالین کلب نامی جریدے میں شائع مائک بینکس، جنہوں نے پہلی مرتبہ اس چوٹی کو سر کیا تھا، کے مضمون کے مطابق 1893 میں برطانوی شہری مارٹن کانوائی نے اس چوٹی کو سر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اس پہاڑ کو سر کرنے کے تین روٹس سے آٹھ مختلف راستے ہیں۔ مہم کی شروعات نگر کے گاؤں میناپن سے ہوتی ہے اور راکاپوشی کے بیس کیمپ ’تغاپری‘ تک جاتی ہے۔ 

راکاپوشی کے بیس کیمپ میں موسم گرما میں زیادہ رش ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر مہمات مئی اور اگست کے درمیان کی جاتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان