ارشد شریف اس ملک کے معروف اینکر و تحقیقاتی صحافی تھے۔ ان کو اپنے وطن سے عشق تھا۔
’ہے‘ سے ’تھے‘ کا سفر میرے لیے اتنا تکلیف دہ ہے کہ شاید میرے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ یوں تو ہم سب نے جانا ہے لیکن شریک حیات زندگی کے سفر میں بچھڑ جائے تو بیوی نخلستان سے کسی ریگستان میں آ جاتی ہے۔
مجھے یہ زعم تھا کہ شاید وہ مجھ سے سب سے زیادہ پیار کرتے تھے لیکن ان کا پہلا عشق پاکستان تھا۔ وہ دھرتی کو ماں کی تکریم دیتے تھے۔ ان کو غربت، مہنگائی، دہشت گردی بہت غمگین کرتی تھی۔
وہ خواب دیکھتے تھے ایک ایسے پاکستان کا جو ترقی یافتہ ہو، جہاں کرپشن نہ ہوتی ہو جہاں عوام خوشحال ہوں۔
ارشد اس ملک سے کرپشن ختم کرنا چاہتے تھے، عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ باہر کے ممالک سے انفارمیشن تک رسائی کے قانون کے تحت دستاویز تک خرید لیتے تھے۔ پھر اس میں سے پاکستانی اشرافیہ کی کرپشن نکالتے تھے۔
وہ بہت لائق اور ذہین تھے، وہ بہت جلدی دستاویزات پڑھ لیتے اور ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ اس کام کی وجہ سے ان کے بہت سے دشمن بن گئے۔
ان کو بہت بار دھمکیاں آئیں لیکن وہ بہت نڈر تھے اپنا کام جاری رکھا۔
پاکستان سے منسوب ہر چیز سے ان کو محبت تھی۔ چوٹی کا اینکر ہونے کے باوجود ان کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت یا اس میں جائیداد نہیں تھی۔
وہ کہتے تھے میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے میں کسی ملک میں شہریت یا ریزیڈنسی نہیں اپلائی کروں گا۔ پاکستان کے قومی دنوں کو بھرپور طریقے سے مناتے۔ اکثر ان دنوں پر رشتہ دار اور احباب ہمارے گھر کھانے پر مدعو ہوتے۔
جشن آزادی پر خاص طور پر شجرکاری کرتے اگر خود نہ کر پائیں تو کسی شجرکاری مہم کو سپانسر کر دیتے تھے۔
پاکستانی پرچم، جھنڈیوں اور بیجز سے ان کو خاص محبت تھی۔ میں نے ان کے لیے پاکستانی جھنڈے والے کف لنکس اور ٹائیاں بھی خرید لیں۔ اگست کے مہینے میں وہ صرف سبز رنگ کی ٹائی پہنا کرتے تھے۔
ان کے آفس جانے سے پہلے میں ان کو ہری ٹائیوں والے ہینگرز دکھاتی، وہ اپنی مرضی کی ٹائی منتخب کرتے، پھر ٹائی پن اور کف لنکس کا مرحلہ آتا۔
جب وہ تیار ہو رہے ہوتے تو ان کے کوٹ پر میں خود کف لنکس اور پاکستانی جھنڈے کا بیچ لگا دیتی۔ ٹائی کوٹ کے ساتھ رکھ دیتی، قلم ان کی جیب پر آویزاں کرتی اور ٹائی پن کوٹ کی جیب میں رکھ دیتی۔
ہم اپنے گھر میں ہم ہمیشہ بڑے پاکستانی پرچم آویزاں کرتے تھے۔ وہ مجھے تاکید کرتے کہ مغرب کے وقت پرچم اتار دیا کرو۔
ہم دونوں نے بہت بار لہراتے ہوئے سبز ہلالی پرچم کی تصاویر ایک ساتھ لیں۔ میں ہمیشہ 14 اگست پر سبز یا سفید رنگ کا لباس پہنتی اور گھر جھنڈیوں اور جھنڈوں سے سجا ہوتا۔
اکثر ارشد ملی نغمے گنگنایا بھی کرتے تھے اور انقلابی شاعری تو ان کو زبانی یاد تھی۔ ان کی آواز بہت منفرد تھی اس لیے شاعری ان پر جچتی تھی۔
ارشد نے 2021 میں یوم آزادی پر نغمہ بنا کر ریلیز کیا جسے یوٹیوب پر لاکھوں صارفین نے دیکھا۔ انہوں نے خود نغمہ پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا۔ مجھے شاعری کرنے لیے کہا میں نے کہا میں نثر کا بندہ ہوں۔
وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر فلم بھی بنانا چاہتے تھے لیکن زندگی نے ان کو مہلت نہیں دی۔
ارشد کبھی بھی اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، پر مسلسل دھمکیاں، تعاقب اور ہمارے گھر میں گھسنے کی کوشش ایسے بہت سے عوامل شامل ہوئے کہ ان کو جانا پڑا۔
جب وہ آخری بار گھر سے نکل رہے تھے تو انہوں نے کالا کوٹ، سبز ٹائی اور سبز کف لنک پہن رکھے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں انہوں نے ہر شو میں پاکستان کا پرچم کوٹ پر لگایا۔
اس دن ان کا پرومو شوٹ تھا جو جشن آزادی پر چلنا تھا۔ پر ان کی حیات میں پرمو نہیں چل سکا، ان کو ملک چھوڑنا پڑا۔ چینل میں کام کرنے والے دیگر ہزاروں لوگوں کے روزگار کی وجہ سے ان کو نوکری چھوڑنی پڑی، یہاں تک کہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان کا جرم کیا تھا؟ اس وطن سے محبت اور کرپشن سے نفرت صرف اس کی پاداش میں ان کو قتل کر دیا گیا۔
صرف میں ہی نہیں، میرے اردگرد رشتہ دار، دوست احباب اور محلہ دار ان کا غم محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے آج میں نے سب سے پہلے ٹیرس پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لگا دیا۔
ہم نے اس سال کوئی تہوار نہیں منایا، لیکن جشن آزادی کا دن ویسا ہی ہے جو ارشد کی زندگی میں ہوتا تھا۔ ارشد کی سبز ٹائی والی کلیکشن میرے سامنے پڑی ہے۔ ان کے پاکستانی جھنڈے والے بیج، کف لنکس اور ٹائی پن باکس میں پڑی ہیں۔
میں نے جھنڈے جھنڈیاں تو لگا دیے ہیں، لیکن گھر میں وہ رونق نہیں جو ان کی موجودگی میں ہوا کرتی تھی۔ گھر میں ہر طرف اداسی اور ویرانی ہے۔
ارشد کی تحریک پاکستان پر کتابیں، پاکستان کے آئین کی کاپی اور اکابرین پاکستان پر تحاریر و تصانیف موجود ہیں۔ میں لائبریری میں ان کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتی ہوں۔ ارشد نے مجھے اس وطن سے محبت کرنا سکھائی، اس وطن کے شہدا اور غازیوں کا احترام سکھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ جب بھی اس وطن کے شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں بھر آتی۔ انہوں نے بہت سے شہدا کے لواحقین، غازیوں اور اکابرین پاکستان کے خاندانوں کے انٹرویو کیے۔
14 اگست کے حوالے وہ خصوصی نیوز شو کرتے تھے جس میں بانی پاکستان قائد اعظم، شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار اجاگر کیے جاتے۔ اس کے ساتھ وہ مسلح افواج کو ان دونوں پر خصوصی خراج تحسین پیش کرتے۔
ان کے لیے پاکستان ایک نظریہ ایک اساس کا نام تھا۔ ارشد ہمیشہ کہتے تھے کہ جیا اگر اس ملک سے کرپشن ختم ہو جائے تو پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے۔
وہ کرپشن کی جنگ اکیلے لڑتے لڑتے اس وطن پر قربان ہوگئے۔ اس وطن کی مٹی میں ان کا خون بھی شامل ہے۔
آزادی بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کریں، اس کو یوں کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہ ہونے دیں۔
ارشد کو دنیا سے گئے ہوئے 23 اگست کو دس ماہ ہو جائیں گے لیکن ان کی قبر پر آج بھی پھول تازہ ہیں، پاکستانی جہاں سے بھی اسلام آباد آئیں ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے ضرور جاتے ہیں۔
ایک درخت کی چھاؤں میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں پر ان کا کام، ان کی آواز آج بھی موجود ہے۔
میرے اردگرد بہت سے بچے ہیں جو مجھے بہت عزیز ہیں، ان کے ساتھ جھنڈیاں لگاتے ہوئے میری آنکھیں چھلک گئیں۔ یہ آنسو عہد رفتہ، ارشد کی یاد اور انصاف نہ ملنے کی وجہ سے بہنے لگے۔
بچوں نے جب سوال کیا کہ ’جیا، کیوں رو رہی ہو؟‘
آنسو جھنڈے اور جھنڈیوں میں جذب ہو رہے تھے۔ میں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا، ’شاید آنکھ میں کچھ چلا گیا ہے، آؤ، جھنڈے اور جھنڈیاں لگائیں جیسے ارشد شریف کو پسند تھیں۔‘