امریکہ نے روس اور چین پر شمالی کوریا کو بچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل روس اور چین کی رکاوٹوں کی وجہ سے شمالی کوریا کے خلاف کارروائی میں ناکام رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی الزام میں کہا گیا ہے کہ چین اور روس شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیانگ یانگ کے خلاف ہونے والی کارروائی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران روس اور چین کے علاوہ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے تین ماہ کے عرصے کے دوران پیانگ یانگ کے جمعرات کو کیے جانے والے دوسرے جاسوس سیٹلائٹ ٹیسٹ کی مذمت کی۔
شمالی کوریا نے اس مقصد کے لیے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تھا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہم سب کو متحد ہونا چاہیے لیکن 2022 کے آغاز سے یہ کونسل چین اور روس کی رکاوٹوں کی وجہ سے (پیانگ یانگ کے خلاف کارروائی کے لیے) اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
ان کے بقول: ’شمالی کوریا کی جانب سے جوہری خطرہ بڑھ رہا ہے جب کہ اس صورت حال میں بھی روس اور چین بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داری پر پورا نہیں اتر رہے ہیں۔‘
تھامس گرین فیلڈ نے گذشتہ ماہ شمالی کوریا کی فوجی پریڈ میں روسی اور چینی حکام کی موجودگی کی بھی مذمت کی تھی جس میں نئے ڈرون اور جوہری صلاحیت کے حامل بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
تھامس گرین فیلڈ نے ماسکو اور بیجنگ کے حوالے سے کہا: ’وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں پر جشن منا رہے ہیں اور کونسل کی (پیانگ یانگ کے خلاف) کارروائی کو روک رہے ہیں۔‘
مئی 2022 میں چین اور روس نے پیانگ یانگ پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا اور اس کے بعد سے سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوریا پر کوئی قرارداد یا اعلامیہ منظور نہیں کیا جا سکا ہے۔
شمالی کوریا کے خلاف سلامتی کونسل میں 2017 میں آخری بار متفقہ کارروائی پر اتفاق ہوا تھا۔
ادھر چینی اور روسی نمائندوں نے اپنے ردعمل میں جنوبی کوریا کے ساتھ جاری امریکی فوجی مشقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن شمالی کوریا کے جارحانہ رویے کا ذمہ دار ہے۔
شمالی کوریا نے طویل عرصے سے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام اپنے دفاع میں جاری رہے گا اور یہ کہ اس کے سیٹلائٹ پروگرام پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔
شمالی کوریا کے سفیر کِم سونگ نے کہا: ’ہمارے جاسوس سیٹلائٹ کی لانچنگ امریکہ کی ہمارے خلاف بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنے دفاع کے جائز اقدام ہے۔‘
شمالی کوریا کے سفیر نے مزید کہا کہ ویسے بھی ان کے ملک نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تسلیم نہیں کیا۔
تھامس گرین فیلڈ نے اس مخالفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب سچ جانتے ہیں کہ شمالی کوریا کی حکومت عوام کی شدید ضرورتوں کے برخلاف محض اپنی حواس باختہ اور خود غرض مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’شمالی کوریا کی جنگی مشین جبر اور ظلم سے پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ شرمناک ہے اور یہ عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔‘
اس سے قبل جمعرات کو شمالی کوریا کی جانب سے جاسوس سیٹلائٹ کو زمین کے مدار میں چھوڑنے کی تازہ ترین کوشش ایک بار پھر ناکام ہو گئی تھی۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے جمعرات کو بتایا تھا کہ راکٹ لانچ دھماکے کے فوراً بعد سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔
ناکامی کے باوجود شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جاسوس سیٹلائٹ کی ترقی کو حکومت کی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کا دعویٰ ہے کہ یہ امریکی افواج کی بڑھتی ہوئی علاقائی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ایک ضروری اقدام ہے۔
کورین سینٹرل نیوز ایجنسی نے بتایا کہ پیانگ یانگ کی نیشنل ایرو سپیس ڈیولپمنٹ ایڈمنسٹریشن نے جمعرات کو علی الصبح جاسوسی سیٹلائٹ مالیگیونگ ون کو دوسری بار لانچ کیا۔
سرکاری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’تیسرے مرحلے کی پرواز کے دوران ایمرجنسی بلاسٹنگ سسٹم میں خرابی کی وجہ سے لانچنگ ناکام ہو گئی۔ یہ بڑا مسئلہ نہیں اور اکتوبر میں لانچنگ کی تیسری کوشش کی جائے گی۔‘