پشاور میں سٹریٹ چلڈرن کا سکول، صبح کام شام کو تعلیم

محمد عامر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ سکول ایک نجی سکول کی عمارت میں قائم ہے جہاں سہ پہر تین بجے کے بعد یہ بچے مستری خانے اور دیگر کام سے فارغ ہو کر پڑھنے آتے ہیں۔‘

ورکشاپ کے میلے کپڑوں میں زمین پر بیٹھے یہ بچے جو ہاتھوں میں کتاب پکڑے استاد کے کہے الفاظ کو دہرا رہے ہیں صبح ورکشاپس سمیت مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں لیکن شام کو تعلیم حاصل کرنے اس سکول آتے ہیں۔

قریب ہی کے دوسرے کمرے میں بچیاں سروں پر دوپٹہ اوڑھے کرسیوں پر بیٹھ کر پڑھنے میں مشغول ہیں جبکہ بعض افغان بچے روایتی لباس میں ملبوس کتابیں پکڑے اے بی سی پڑھ رہے ہیں۔

یہ منظر ہے پشاور کے علاقے پجگی روڈ پر واقع ایک انوکھے سکول کا جہاں پر یہ بچے تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

اس سکول میں وہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جو صبح ورکشاپس، تندور کی دکانوں، گلیوں میں یا سڑکوں پر مختلف اشیا بیچتے ہیں۔ عام طور پر ایسے بچوں کو سٹریٹ چلڈرن کہتے ہیں۔

اس سکول کو چلانے والے پی ایچ ڈی کے طالب علم محمد عامر ہیں جو ایک سال سے زائد عرصے سے اس سکول کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں۔

محمد عامر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ سکول ایک نجی سکول کی عمارت میں قائم ہے جہاں سہ پہر تین بجے کے بعد یہ بچے مستری خانے اور دیگر کام سے فارغ ہو کر پڑھنے آتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا ’ان میں زیادہ تر وہی بچے ہیں جو مستری خانوں میں صبح سے شام تک کام سیکھتے ہیں اور یا گلی کوچوں میں سامان بیچتے ہیں۔‘

محمد عامر کہتے ہیں کہ ’یہ بچے سکول سے باہر ہیں اور ان کی اخلاقی و تعلیمی تربیت کا کوئی اتنظام موجود نہیں ہے تو ہم نے اس سکول میں ان کو تعلیم دلانے اور ان کی اخلاقی تربیت کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس سکول میں 150 سے زائد بچے ہیں، جن میں کچھ ایسے بچے بھی موجود ہیں جو والدین کے سائے سے محروم ہیں۔‘

محمد عامر نے بتایا کہ ’ہم ایسے بچوں کو بھی ترغیب دلاتے ہیں جن کے والدین حیات نہیں ہے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان بچوں کی تربیت گاہ

ان بچوں کے علاوہ اس سکول میں افغان بچے اور بچیاں بھی زیر تعلیم ہیں۔

 محمد عامر کے مطابق ’افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم میں مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی ہوئیں تو افغان والدین ایک بار پھر پناہ گزین بن کر پشاور میں مقیم ہو گئے۔‘

’انہی افغان بچوں کو تعلیم دلانے کی غرض سے ہم نے ان کو اس سکول میں داخلے دیے اور اب وہ یہاں پڑھ رہے ہیں۔‘

سکول کے اخراجات کے حوالے سے عامر نے بتایا کہ ’اس عمارت کو ہمیں ایک نجی سکول کے مالک نے شام کے بعد استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ بل وغیرہ ہم خود ادا کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سکول میں پانچ اساتذہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اس سکول کے تمام اخراجات ہمارے کچھ دوست چندہ اکھٹا کر کے پورا کرتے ہیں۔‘

محمد عامر کے مطابق اس سکول میں نرسری سے لے کر چوتھی جماعت تک بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں اور کلاسز کا دورانیہ دن تین بجے سے لے کر شام چھ بجے تک ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سکول میں ہم بچوں کی دلچسپی کے لیے ان ڈور اور آؤٹ ڈور سرگرمیوں کا انعقاد بھی کرتے ہیں تاکہ بچے شوق سے سکول آیا کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل