عالمی سطح پر فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ جنوبی ایشیا ہے جس میں بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال اور پاکستان باریک ذرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ آلودہ چار ممالک میں شامل ہیں۔
ایک تازہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فضائی آلودگی زمین پر عام آدمی کی صحت کے لیے تمباکو نوشی یا شراب کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے، اس کے عالمی مرکز جنوبی ایشیا میں خطرہ بدتر ہوتا جارہا ہے جبکہ چین میں تیزی سے بہتری آ رہی ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مختص فنڈنگ متعدی بیماریوں سے لڑنے کے لیے مختص رقم کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ گاڑیوں اور صنعتی اخراج، جنگل کی آگ اور دیگر چیزوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ’صحت عامہ کے لیے سب سے بڑا بیرونی خطرہ‘ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اگر دنیا آلودگی کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجویز کردہ حد تک کم کرتی ہے تو اوسط شخص کی متوقع عمر میں 2.3 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
پھیپھڑوں اور دل کی بیماری، فالج اور کینسر کا تعلق باریک ذرات سے ہے۔
اس کے مقابلے میں تمباکو کا استعمال عالمی سطح پر متوقع عمر کو 2.2 سال تک کم کرتا ہے جبکہ زچہ اور بچے کی غذائی قلت سے 1.6 سال کم ہوتی ہے۔
ایشیا اور افریقہ سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرتے ہیں لیکن پھر بھی شہریوں کو بروقت اور درست اعداد و شمار فراہم کرنے کے لیے کچھ کمزور ترین انفراسٹرکچر موجود ہیں۔
پورے براعظم افریقہ کو فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے تین لاکھ ڈالر ملتے ہیں۔
ای پی آئی سی میں ایئر کوالٹی پروگرامز کی ڈائریکٹر کرسٹا ہسینکوف نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’فضائی آلودگی بدترین کہاں ہے اور عالمی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم کہاں وسائل استعمال کر رہے ہیں، ان دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے۔
’اگرچہ گلوبل فنڈ کے نام سے ایک بین الاقوامی فنانسنگ پارٹنرشپ ہے جو ایچ آئی وی / ایڈز، ملیریا اور تپ دق پر سالانہ چار ارب ڈالر تقسیم کرتی ہے، لیکن فضائی آلودگی کے لیے اس کے مساوی نہیں ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’فضائی آلودگی نے ڈی آر سی (ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو) اور کیمرون میں ایچ آئی وی/ ایڈز، ملیریا اور صحت کے دیگر خطرات کے مقابلے میں اوسط انسان کی زندگی سے زیادہ سال کم کیے ہیں۔‘
بنگلہ دیش سرفہرست
عالمی سطح پر جنوبی ایشیا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا خطہ ہے۔ بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال اور پاکستان باریک ذرات کے لحاظ سے سب سے زیادہ آلودہ چار ممالک میں شامل ہیں۔
ان ذرات کا پتہ سیٹلائٹ کے ذریعے لگایا جاتا ہے اور انہیں 2.5 مائیکرون یا اس سے کم قطر (پی ایم 2.5) والے ذرات کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد فضائی آلودگی کے ارتکاز کو اے کیو ایل آئی میٹرک میں فیڈ کیا جاتا ہے جو متوقع عمر پر ان کے اثرات کا حساب لگاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلہ دیش کے باشندوں کی زندگی میں 6.8 سال بڑھ سکتے ہیں اگر وہ پی ایم 2.5 کی سطح ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے مطابق پانچ مائیکروگرام فی مکعب میٹر تک نیچے لے آئیں۔ بنگلہ دیش میں پی ایم 2.5 کی اوسط سطح 74 مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھی۔
انڈیا کا دارالحکومت دہلی دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے جہاں سالانہ اوسط آلودگی 126.5 مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے۔
کرسٹا ہسینکوف کے بقول چین نے 2014 میں شروع ہونے والی ’فضائی آلودگی کے خلاف جنگ میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔‘
2013 اور 2021 کے درمیان اس کی فضائی آلودگی میں 42.3 فیصد کمی آئی ہے۔ اگر یہ بہتری برقرار رہتی ہے تو اوسط چینی شہری کی عمر میں 2.2 سال کا اضافہ ممکن ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں کلین ایئر ایکٹ جیسی قانون سازی کے اقدامات نے 1970 کے بعد سے آلودگی کو 64.9 فیصد تک کم کرنے میں مدد کی، جس سے امریکی شہریوں کی عمر میں 1.4 سال کا متوقع اضافہ ہوا۔
لیکن جنگلات میں لگنے والی آگ کا بڑھتا ہوا خطرہ ، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرم درجہ حرارت اور خشک سالی سے جڑا ہے۔ مغربی امریکہ سے لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا تک آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
مثال کے طور پر، کیلیفورنیا کے اندر2021 میں لگنے والی تاریخی جنگل کی آگ سے پلمس کاؤنٹی میں ڈبلیو ایچ او کی حد سے پانچ گنا سے زیادہ باریک ذرات کا ارتکاز دیکھا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں شمالی امریکہ کی فضائی آلودگی میں بہتری کی کہانی یورپ سے ملتی جلتی ہے ، لیکن مغربی اور مشرقی یورپ کے مابین واضح فرق موجود ہیں۔