پاکستان سٹاک ایکسچینج میں جمعرات کو بھی مندی کا رجحان رہا اور آج دوپہر مارکیٹ کا بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 1800 سے زائد پوائنٹس گر کر 3.78 فیصد کمی کے ساتھ 45 ہزار کی نفسیاتی حد سے نیچے 44,496.92 پوائنٹس پر آگیا۔ گذشتہ روز مارکیٹ 100 انڈیکس 46,244.55 پوائنٹس پر بند ہوئی تھی۔
میڈیا پر سٹاک ایکسچینج کے کریش کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں بتایا کہ مارکیٹ میں مندی ضرور آئی ہے مگر اس مندی کو مارکیٹ کریش کرنا نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ان کے مطابق: ’جب 100 انڈیکس اچانک پانچ فیصد تک گر جائے تو مارکیٹ خود بخود لاک ہو جاتی ہے جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مارکیٹ کریش ہو گئی۔
’آج مارکیٹ میں 3.78 فیصد کمی آئی، جس کے بعد دوبارہ بہتری آئی اور 100 انڈیکس میں 1300 تک ٹرینڈ کر رہا ہے۔‘
معاشی ماہرین کے مطابق شدید گراوٹ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، سیاسی اور معاشی غیر یقینی کی صورت حال اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام سے باہر نکلنے کے خدشات جیسی قیاس آرائیوں کے بعد آ رہی ہے۔
اے کے وائی سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹیو افسر امین یوسف نے کہا: ’پاکستان سٹاک مارکیٹ میں مندی ضرور آئی ہے ایک وقت کے لیے 100 انڈیکس 1800 سے زائد پوائنٹس گر گیا مگر مارکیٹ کریش ہونے کی خبروں میں صداقت نہیں۔ جب مارکیٹ بہت زیادہ گر جائے اور ہالٹ لگ جائے تب یہ کہا جا سکتا ہے کہ مارکیٹ کریش کر گئی۔
’مارکیٹ میں 100 انڈیکس اچانک 1800 پوائنٹس سے زیادہ گر گئے تھے، مگر اس کے بعد مارکیٹ دوبارہ سنبھلی اور اس وقت منفی 1200 پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔ ‘
'انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت مارکیٹ میں سیلنگ کا رجحان ہے۔ جب بھی کوئی اکاؤنٹ ہولڈر شیئر بیچنا چاہتا ہے تو بیچنا ضروری ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں جب سیلنگ زیادہ ہوتی ہے تو خریدار پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں خریدار کم اور بیچنے والے زیادہ ہوتے ہیں، جس کے باعث مارکیٹ مندی کا شکار ہوجاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس شدید مندی کا بڑا سبب روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔ جب سرمایہ نہیں آتا تو گراوٹ ہوتی ہے۔‘
کراچی میں مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک کے مطابق ملک میں جاری شدید معاشی بحران اور سیاسی غیر یقینی کے باعث مارکیٹ میں شدید مندی دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’روپے کی قیمت میں مسلسل کمی اور مارکیٹ میں سیاسی غیر یقینی اور عام انتخابات تاخیر سے ہونے کی قیاس آرائیاں ہیں۔
’اس کے علاوہ بجلی کے بلوں پر شدید عوامی ردعمل، بلوں کو جلانے اور بل ادا نہ کرنے کے اعلانات کے بعد سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایسی صورت حال میں کہیں پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہ نکل جائے کیوں کہ دیگر شرائط کے ساتھ آئی ایف کی یہ بھی شرط تھی کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے اور کسی بھی قیمت پر بجلی پر سبسڈی نہ دی جائے۔ آئی ایم ایف کی اگلی قسط نومبر میں آنی ہے۔ ‘
انہوں نے مزید کہا: ’جب بھی غیر یقینی صورت حال ہوتی ہے تو سرمایہ کار محتاط ہوجاتے ہیں اس لیے سٹاک مارکیٹ میں گذشتہ کئی دنوں سے مندی ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جرنل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر پاکستان نے جب امپورٹ کھولی تو ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہو گیا اور روپے کی قیمت میں مسلسل گراوٹ ہے۔ ایسی معاشی بحران کے اثرات سٹاک مارکیٹ پر آنے تھے۔
’گذشتہ حکومت نے درآمدات اور برآمدات میں کچھ توازن رکھا ہوا تھا۔ لگژری اشیا منگوانے پر بھی سختی تھی مگر اب امپورٹ کُھلنے کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کے بعد سٹاک مارکیٹ میں مندی دیکھی جا رہی ہے۔‘