’دکان میں صرف ایک پنکھا چلانے کے باوجود اس ماہ بجلی کا بل 50 ہزار روپے آیا جس میں 16 ہزار روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیے گئے۔‘
یہ کہنا ہے محمد زین کا جو آبپارہ مارکیٹ میں خواتین کے کپڑوں کی چھوٹی سے دکان چلاتے ہیں۔ زین نے بتایا کہ ’کاروبار بالکل ٹھیک نہیں چل رہا، مارکیٹ میں مہنگائی کی وجہ سے گاہک نہیں آ رہے اور اس لیے ہمارا گزارا نہیں ہو رہا۔ اس کے اوپر بےتحاشا اضافے اور ٹیکسز لگائے گئے بل ہمیں موصول ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا، ’ٹیکس وقت پر دینے کے باوجود بجلی کے بلوں میں اضافہ برداشت کے باہر ہے۔ اتنی مہنگائی کے بعد کاروبار جاری رکھنے سے بہتر ہے اسے بند ہی کر دیں۔‘
حالیہ دنوں آنے والے بجلی کے بلوں کے خلاف جہاں کئی حلقے احتجاج کر رہے ہیں وہیں تاجر برادری کی جانب سے بھی ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
جمعرات کو اسلام آباد میں تجارتی مراکز جزوی طور پر بند ہیں۔ ایک جانب اسلام آباد کی مصروف آبپارہ مارکیٹ میں اکثر و بیشتر دکانیں بند تھیں، البتہ شہر کی دوسری مارکیٹوں میں جزوی تالا بندی کی اطلاع ہے۔
آل پاکستان انجمن تاجران پاکستان نے چند روز قبل بجلی کے اضافی بلوں کے پیش نظر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی جس کے بعد آج اسلام آباد کی بیشتر مارکیٹس بند کرتے ہوئے تاجروں نے دکانوں کو تالے لگا دیے ہیں۔
آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ بجلی کے کمرشل بلوں میں سب سے زیادہ ٹیکس لگائے گئے، حکومت بجلی کے اضافی بل واپس لے۔
انہوں نے کہا کہ ’تاجروں کے پاس اضافی بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔ ’حکومت نے تاجروں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا ہے، شٹر ڈاون ہڑتال کے بعد احتجاج کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔‘
دوسری جانب بجلی کے بلوں کے خلاف آج ملک کے مختلف شہروں میں شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین کہیں بلوں کو آگ لگا رہے ہیں تو کہیں میٹر توڑ کر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بجلی کے زیادہ بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف ہونے والا یہ احتجاج کسی سیاسی جماعت کی قیادت کے بغیر ہو رہا ہے۔ اکثر جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ عام شہری خود اکٹھے ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے مہنگائی کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اسے اتنے بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کی جانب سے بھی بجلی کے بلوں کے خلاف دو ستمبر کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔
عوام کی جانب سے مختلف محکموں کو دی جانے والی مفت بجلی کے یونٹ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
مراعات یافتہ طبقے کو حاصل سہولت واپس لینے کی تجویز زیر غور
گذشتہ روز نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بجلی بلوں میں اضافے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا، ’ہمارے پاس مالی گنجائش نہیں ہے، جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔ ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔‘
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) معاہدہ پر بات کرتے ہوئے کہا یہ معاہدہ انہیں ورثے میں ملا ہے، اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ دوسرے دو طرفہ قرضے جڑے ہیں۔ ’گذشتہ منتخب حکومت نے آئی ایم ایف سے ایڈجسٹمنٹس کا معاہدہ کیا، نگران حکومت اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتی۔ تاہم مراعات یافتہ طبقے کو حاصل سہولت واپس لینے کی تجویز زیر غور ہے۔‘
وزیر خزانہ نے نگران کابینہ کے اختیارات میں اضافے سے متعلق بل پر بات کرتے ہوئے کہا، ’یہ تاثر درست نہیں کہ ہمارے پاس لامحدود اختیارات ہیں۔ ہمارے پاس محدود اختیارات ہیں اور ان کے اندر رہتے ہوئے کام کریں گے۔‘