سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنگلی حیات اور جانوروں خصوصا انڈس ڈولفن کی دیکھ بھال اور ان کی بقا کے لیے بھلن فاؤنڈیشن قائم کی ہے۔
’میں فلاحی کام اپنے والد کے فلسفہ انسانیت کو ذہن میں رکھ کرتا ہوں۔ مرتضی بھٹو ایک مہربان اور شفیق شخصیت کے مالک تھے ان کی یادیں میرے ذہن میں نقش ہیں۔‘
ان خیالات کا اظہار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے اور میر مرتضی بھٹو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹو (جونیئر) نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں اور میری بہن فاطمہ بھٹو ماحولیات سمیت جنگلی حیات اور جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کی بقا کے لیے خصوصی اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ دریائے سندھ ہماری پہچان اور پاکستان کی لائف لائن ہے۔‘
ذوالفقار جونیئر کے مطابق دریائے سندھ میں دنیا کی نایاب نسل کی ڈولفن پائی جاتی ہے جسے انڈس بلاِئنڈ ڈولفن کہا جاتا ہے۔ میں نے اپنی تنظم بلھن فائونڈیشن کی بنیاد بھی اسی لیے رکھی ہے۔
’یہ دریائے سندھ کی پہچان ہے اور سندھو دریا کی خوشحالی کی نشانی ہے۔ سندھ کے ماحول کے لیے بہت بہتر ہے کہ ہم اس کی افزائش اور اس کے تحفظ کے لیے کام کریں۔
ذوالفقار جونیئر نے بتایا کہ ڈولفن صاف پانی کی مچھلی ہے یہ اس بات کی بھی نشانی ہے کہ ’ہمارا قدیم دریا کتنا محفوظ ہے‘۔
’اس تنظیم کا کام عوام میں بلائنڈ ڈولفن سمیت دیگر جانوروں کے لیے کام کرنا ہے۔ جس طرح ہم لوگ انسانوں کے حقوق کے لیے کوششیں کرتے ہیں اسی طرح ان بے زبان جانوروں کی زبان بھی ہمیں ہی بننا ہوگا۔‘
سیاست میں سرگرم ہونے کے سوال پر ذوالفقار بھٹو نے کہا کہ ’میں مورثی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اس لیے محنت سے عوام کی خدمت عوام میں رہ کر کر رہا ہوں۔
’ملک کے مسائل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں مگر اس کا حل صرف یکجہتی میں ہے۔ ہم سب کو رنگ و نسل مذہب سے بالا تر ہوکر سوچنا ہوگا۔ بلاول بھٹو سمیت بے نظیر بھٹوکے خاندان کے کسی فرد سے کوئی رابطہ نہیں ہے تاہم بلاول بھٹو میرے کزن ہیں اور ہم سب بھٹو خاندان کا خون ہیں، اس کی کامیابی پر مجھے خوشی ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میر مرتض بھٹو کے قتل کے مقدمے پر انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کیس کھولنے کا کہا تاہم اس بارے میں کوئی بات کرنا مناسب ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے فیلڈ آفیسر اور انچارج انڈس ڈولفن سینٹر میر اختر حسین تالپر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ڈولفن پائی جاتی ہیں لیکن دریائے سندھ میں پائی جانے والی انڈس ڈولفن دوسرے ممالک میں نہیں پائی جاتیں کیوں کہ اس کی آنکھیں نہیں ہوتی اس لیے اسے بلائنڈ انڈس ڈولفن کہتے ہیں۔
’قدرت نے اس میں ایسا نظام بنایا ہوا ہے کہ یہ سب کام بہتر انداز میں انجام دیتی ہے۔ اس کی زیادہ تعداد سندھ کے دریاؤں میں رہتی ہے اور سب سے زیادہ ڈولفنز سکھر اور گڈو بیراجوں کے درمیانی علاقوں میں رہتی ہیں۔
اختر حسین نے مطابق: ’یہ ممالیہ جانور ہے چند سال قبل تک اس کی نسل کو شدید خطرات تھے تاہم اب مختلف تنظیموں اور سرکاری سطح پر عوام میں شعور پیدا ہونے سے اس کے شکار کی روک تھام سے اس کی افزائش بہتر ہوئی ہے اور اس کی تعداد میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے فیلڈ آفیسر نے بتایا کہ 2019 میں کیے جانے والے آخری سروے میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ ایک 1419 ڈولفن دریائے سندھ میں موجود ہیں جبکہ ان کی تعداد کا ایک بڑا حصہ گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان 200 کلومیٹر کے حصے میں تھا جسے انڈس ڈولفن ریزرو قرار دیا گیا تھا۔
اختر حسین تالپر کے مطابق دریائے سندھ میں آلودگی، شہروں کا گدلا پانی چھوڑنے اور کناروں پر کاشتکاری اور اس میں زہر یلا اسپرے کرنے سے انڈس ڈولفن کی افزائش متاثر ہو رہی ہے۔