حسب توقع پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کا فیصلہ پابند سلاسل سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لیے کسی بھی قسم کا ریلیف لے کر نہیں آیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نواز شریف کو ریلیف ملنے کی کسی بھی ممکنہ صورت کو نواز شریف یا مریم نواز کے وکلا کی جانب سے ویڈیو کے اصل ہونے کے ثبوت فراہم کرنے سے مشروط کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اب نواز شریف کا مقدمہ سنے گی جہاں نواز شریف کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ویڈیو دراصل اصلی تھی اور اس کی آڈیو میں کوئی گڑ بڑ نہیں کی گئی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ویڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے کے بارے میں عدلیہ کو ابھی بھی شکوک و شبہات ہیں تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ ریمارکس کیوں دیئے کہ جج ارشد ملک نے سارے ایماندار منصفوں کا سر شرم سے جھکا دیا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیوں کر اس وڈیو کی بنا پر جج ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم جاری کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ انتہائی عجیب منطق ہے کہ ایک جانب تو اس ویڈیو کو بنیاد بنا کر جج کے خلاف کارروائی کا حکم سنا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نواز شریف کو کہا جاتا ہے کہ اس ویڈیو کو عدالت میں اصل ثابت کرے۔ چونکہ باد مخالف کا رخ اس وقت نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف ہے اور ہوا کے رخ پر چلنے والے زیادہ تر صحافی اور دانشور حاکم شہر کے ہاتھوں پر بیعت کر کے گوئبلز اور ایڈورڈ برنیز کے بنائے گئے پراپیگنڈا پھیلانے کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہیں اس لیے ٹی وی کی سکرینوں اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں فی الحال منصفوں کے ہر فیصلے پر داد و تحسین کے ڈونگرے نچھاور کیے جا رہے ہیں اور ہر دور میں راگ درباری الاپنے والے اس وقت ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی صورت عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ منصفوں کے فیصلے کس قدر غیر جانبدار ہیں اور نواز شریف یا دیگر سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل رکھنا ملکی بقا کے لیے لازم و ملزم ہے۔ ہر جانب سے قصیدہ خوانی اور راگ درباری اس قدر زور و شور سے الاپے جا رہے ہیں کہ ان کے شور میں سچ کہیں بہت دور بیٹھا دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس شور میں اعلی عدلیہ اور مقتدر قوتیں یہ دیکھنے سے بھی قاصر ہیں کہ وطن عزیز میں عدلیہ کی پہلے سے متنازعہ تاریخ میں مزید سیاہ باب شامل ہو چکے ہیں۔ ابھی تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کی کالک عدلیہ کے ماتھے سے نہیں اتری تھی کہ اب پنجاب کے صوبے کے اندر ایک اور گڑھی خدا بخش بنانے کی تیاری جاری ہے۔
انا اور ذاتیات کی جنگ میں اداروں کو تباہ کرنا بھلا کہاں کی دانش مندی ہے اور اگر ان کو اپنے حق میں استعمال کر کے سیاسی بساط پر جیت حاصل کر بھی لی جائے تو وہ جیت بےمعنی اور بے مزہ ہوتی ہے کہ وطن میں موجود پہلے سے کمزور عدلیہ یا پارلیمان کے اداروں کو مزید کمزور کر کے وقتی اہداف حاصل کرنے سے شاید انا کی تسکین تو ہو جاتی ہو گی لیکن ایسے اقدامات کے منفی اثرات کے باعث یہ ادارے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کے کمزور ہونے سے بحیثیت قوم مستقبل کے سفر کے برعکس ماضی کی جانب سفر جاری و ساری رہے گا۔
وہ تلخ ماضی جو کم بخت اس ملک کے نظام سے جسٹس منیر، ایوب خان، ضیا الحق اور ثاقب نثار کی صورت میں آج بھی چمٹا ہوا ہے اور اس نظام کو یرغمال بنائے بیٹھا ہے۔ نواز شریف، آصف زرداری یا کسی بھی اور سیاسی مخالف کو نشان عبرت بنانا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے اور بھی طریقوں کا انتخاب کیا جا سکتا تھا لیکن کبھی عدلیہ اور کبھی کٹھ پتلی پارلیمانی رہنماوں کو استعمال کر کے جس طرح سے ڈوروں کو الجھایا گیا ہے اب ان کا سلجھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔