ہماری ایک پاکستانی ساتھی جن کے پاس ایک سے زیادہ یونیورسٹیوں کی ڈگریاں تھیں اور وہ ایک عالمی ادارے میں کافی بڑے عہدے پر کام کر رہی تھیں، ایک دن بہت زور دے کر یہ بتا رہی تھیں کہ وہ بہت نیک ہیں۔ اس بات کی گواہی کے طور پر انہوں نے فرمایا کہ وہ اپنے شوہر سے پہلی دفعہ سہاگ رات کو ہی ملی تھیں۔
اس بات پر سارے پاکستانی ساتھی خواتین و حضرات تعریف کے ڈونگرے برسانے ہی والے تھے کہ بیچ میں بیٹھی ایک غیرملکی خاتون بول پڑیں ’کسی خاتون کے لیے تو یہ بہت قابل نفرت اور قابل کراہت بات ہے کہ وہ ایک مرد سے پہلی ہی دفعہ جنسی فعل کے لیے ملے۔‘
زیادہ تر پاکستانی دوست اس غیرملکی خاتون کے نئے نکتے پر ٹھٹک کر رہ گئے لیکن تھوڑی دیر بعد سنبھل کر بہرحال دلیلیں اسی بات کی لانے لگے کہ شادی سے پہلے ملنا یا محبت کا چکر چلانا مذہب اور ہمارے معاشرے کے نزدیک کوئی پسندیدہ عمل نہیں۔ یہ کہانی کل فیس بک پر ایک مقبول پوسٹ دیکھ کر یاد آئی۔
ہمارے ایک بہت مشہور اداکار حمزہ علی عباسی نے، جن کے فیس بک پیج کے فینز کی تعداد 40 لاکھ سے بھی زیادہ ہے، ابھی اپنی شادی کا اعلان فیس بک پر ایک لمبی پوسٹ لکھ کر کیا۔
وہ پوسٹ بہت چلی، پوسٹ لگنے کے اڑھائی دن کے اندر ایک لاکھ 70 ہزار ری ایکشنز اور 48,000 کمنٹس آ چکے ہیں۔ یہ پوسٹ 78,000 مرتبہ شیئر ہو چکی ہے اور سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مشہور ہونے کے نئے معیار تو یہی ہیں۔
فیس بک کی اس پوسٹ سے مطلب یہ نکلتا ہے وہ اب پکے مسلمان ہو گئے ہیں اور اب ان کا ہر کام صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اس لیے وہ شادی بھی اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں حالانکہ انہیں اپنی ہونے والی بیوی سے محبت نہیں اور ہونے والی بیوی سے محبت نہ ہونے کے ثبوت کے طور پر وہ فرماتے ہیں وہ دونوں دو برسوں سے قریبی دوست ہیں لیکن ان کے درمیان کوئی جسمانی یا جذباتی تعلق ہے اور نہ تھا۔
محبت کی شادی اس ملک میں حرام ہے، گناہ ہے اور بےغیرتی ہے۔ محبت کی شادی کے جرم میں لوگ اپنی ہی نوجوان اولاد یا اپنی بہنوں کو قتل کر دیتے ہیں اور ہیرو بن جاتے ہیں۔ یہ ہماری روایات ہیں جن پر ہمیں فخر ہے۔
اسی لیے آئے دن غیرت کے نام قتل کرنے کے واقعات اس ملک میں سامنے آتے ہیں۔ حکومت ہر چند سال بعد اس مسئلے پر قوانین بنانے کی کوشش کرتی ہے لیکن آخری منٹ میں ایک خاص طبقہ مذہب کے نام پر یا تو اس کوشش کو رکوا دیتا ہے اور اگر رکوا نہ سکے تو پاس ہونے والے قانون کو اتنا کمزور کر دیا جاتا ہے کہ وہ بیکار ہو جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ کہ جس معاشرے میں محبت کی شادی کے خلاف لوگ اپنی جوان اولاد کے قتل جیسا گھناؤنا جرم کرنے کو تیار ہیں، وہاں ایک پوسٹ لکھنا تو بہت ہی آسان کام ہے۔ اس لیے توقع کے عین مطابق اس پوسٹ نے ہمارے مشہور فنکار کو اور بھی مقبول بنا دیا ہے۔
اس پوسٹ کا ایک اور انوکھا پہلو بھی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ محبت کی شادی اللہ تعالی کو بالکل بھی پسند نہیں۔ اللہ تعالی ناراض ہو جاتے ہیں، اگر محبت کی شادی کی جائے اور ہمارے یہ زبردست اور ہر دلعزیز فنکار چونکہ اب اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہتے اس لیے وہ ایک ایسی شادی کر رہے ہیں جس میں محبت نہیں ہے۔
ان کی پوسٹ سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اللہ ان کی مدد صرف اسی صورت میں کرے گا کہ وہ بغیر محبت کے شادی کریں گے اور وہ ایسا نہ کرتے یعنی محبت کی شادی کر لیتے تو انہیں اللہ کی مدد میسر نہ ہوتی اور کبھی بھی سکون نصیب نہ ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اپنی ہونے والی بیوی سے بھی اس لیے بہت خوش ہیں کہ انہوں نے اللہ کی رضا کے لیے اس شادی کے لیے ہاں کر دی ہے۔
یورپ یا امریکہ میں رہنے والے پاکستانی دوست اس بحث میں ایک اور پہلو لے آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرد اور عورت کے درمیان تو محبت کی شادی جائز ہے اور اس سے اللہ کی خوشنودی ختم نہیں ہوتی لیکن مذاہب میں ہم جنسوں کے درمیان شادی ناجائز ہے۔
اس لیے ہمارے یہ مشہور و مقبول فنکار شاید اسی ’گناہ‘ سے بچنے کی بات کر رہے ہیں اور وہ ہم جنسوں کی رہنمائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ہم جنس لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو درست کریں۔ یعنی ان کا مطلب ہے آپ کے اندر غیر معمولی قدرتی جزبات یا خصائص کی جو جنگ چل رہی ہے اس کے لیے آپ وہ فیصلہ کریں جو انہوں نے کیا ہے، کیونکہ سیدھا راستہ وہی ہے جو ان صاحب نے اپنایا ہے۔
اس متنازعہ اور مشہور فنکار کی مقبول اور مبہم پوسٹ سے شخصی آزادی سے متعلق بہت بنیادی سوالات اٹھتے ہیں لیکن ہم ’سوچنا منع ہے‘ کی پالیسی جاری رکھیں گے ایسے سستے بیانات پر واہ واہ کرتے رہیں گے اور انسانی خوشیوں کا قتل جاری رہے گا۔