حکومت پاکستان تین سرکاری پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے حصص فروخت کرنے پر غور کر رہی ہے۔
عوامی پیشکش کے ذریعے ’تین اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیوں کے لیے‘ نگران حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ملک قرضوں میں ڈوبے ہوئے اس شعبے کو درپیش مالی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ملک کا پاور سیکٹر بجلی چوری اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کی بلند شرحوں سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں پروڈکشن چین پر قرض بڑھ رہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔
پاور ڈویژن کے سیکرٹری رشید لنگڑیال نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا ’بالآخر نجکاری ہی ہمارا آخری راستہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ تین کمپنیوں کے لیے انیشل پبلک آفرنگ (آئی پی او) پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے ساتھ ساتھ دارالحکومت اسلام آباد کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنیاں قرار دیا جو سب سے زیادہ بلوں کی ریکوری کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری سرکاری کمپنیاں، جو چوری اور لائن لاسز کی وجہ سے ریکوری کی کم شرح جیسے مسائل کا شکار ہیں، بڑے پیمانے پر نقصان اٹھا رہی ہیں اور ان کو نجکاری کے لیے بہتر بنانے کے لیے کام کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان میں دس ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں جنہیں مقامی طور پر ڈسکوز (DISCOs) کہا جاتا ہے۔
اس سے قبل نگران وزیر توانائی محمد علی نے بدھ کو کہا کہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری روکنے کے لیے کریک ڈاؤن شروع ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے قرض کی بحالی کے لیے پاکستان نے اپنے پاور سیکٹر میں اصلاحات کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
معاہدے میں آئی ایم ایف کی طرف سے پاور سیکٹر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جس نے لاگت کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف کو ’بروقت‘ درست کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی ریکارڈ بلند ترین مہنگائی کا سامنا کرنے والے صارفین پر مزید بوجھ پڑے گا۔