صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی پانچ سالہ مدت آج (آٹھ ستمبر) کو مکمل ہو چکی ہے۔
نو ستمبر 2018 کو صدر مملکت کا حلف اٹھانے والے عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر ہیں۔
آئین کے مطابق صدر مملکت اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہ سکیں گے۔
تاہم صدر عارف علوی نے تاحال ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے یا اس سے مستعفی ہو جائیں گے۔
آئین کیا کہتا ہے؟
آئین کے آرٹیکل 41 کی شق چار کے مطابق صدر کا الیکشن صدارتی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 اور کم سے کم 30 دن قبل کروایا جائے گا۔ اس دوران اگر اسمبلی توڑ دی گئی ہو تو صدارتی انتخاب عام انتخابات ہونے کے بعد 30 دن کے اندر کروایا جائے گا۔
اس اعتبار سے صدارتی انتخاب آٹھ ستمبر سے 30 دن قبل ہونا تھا۔ آئین کے مطابق صدر کا چناؤ سینیٹ، قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کرتا ہے۔
تاہم اس وقت الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہے کیونکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں موجود نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کے باعث صدر کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔
صدر کے دفتر کا الیکٹورل کالج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (سینیٹ اور قومی اسمبلی) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 44 ون کے مطابق صدر اپنے عہدے کی میعاد ختم ہو جانے کے باجود نئے صدر کے انتخاب اور عہدہ سنبھالنے تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔
اس طرح آئین کی رو سے صدر عارف علوی نئے عام انتخابات ہونے اور پھر الیکٹورل کالج مکمل ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب اور عہدہ سنبھالنے تک بطور صدر مملکت اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آئین کے مطابق صدر عارف علوی مدت صدارت ختم ہونے کے باوجود اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، جب تک کہ اگلے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔ اس بات میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی توسیع یا نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہے۔
مدت پوری ہونے کے باوجود صدر کے کام جاری رکھنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’آئین نے صدر کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کام جاری رکھیں گے۔‘
صدر عارف علوی کے عہدے سے مستعفی ہونے سے متعلق سوال پر احمد بلال نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وہ استعفیٰ دینے والے ہیں لیکن اگر وہ چاہیں تو استعفیٰ کسی بھی وقت دے سکتے ہیں، اس صورت میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔
اس طرح ڈاکٹر عارف علوی کے صدارت چھوڑنے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اگلے عام انتخابات کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک صدر کے طور پر کام کریں گے۔
ایوان صدر سے متعلق خبروں کی کوریج کرنے والی صحافی نوشین یوسف نے عارف علوی کے دور صدارت کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ ڈیڑھ سال میں جب سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، متعدد چیزیں تنازعات کا شکار ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’صدر عارف علوی کے گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں متعدد متنازع چیزیں سامنے آئیں جیسے عمران خان کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کرنا اور منتخب کردہ وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہ لینا۔‘
بقول نوشین: ’عموماً پاکستان تحریک انصاف سے منسلک افراد کو سخت گیر موقف کی پیروی کرتے دیکھا گیا ہے تاہم صدر علوی کے رویے میں لچک نظر آئی اور وہ شہباز شریف اور گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے ملاقاتیں بھی کرتے نظر آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے متعلق بیانات کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ صدر عارف علوی ان کی تعیناتی سے متعلق سمری پر دستخط نہیں کریں گے لیکن اس کے برعکس انہوں نے فوراً سمری پر دستخط کیے اور معاملہ نمٹایا۔
نوشین یوسف نے قانون سازی سے متعلق معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر عارف علوی نے اعتراضات لگا کر سپریم کورٹ پروسیجر بل، نیب ترمیمی بل اور الیکشن ایکٹ ترمیمی بل بھی واپس کیے۔ ’صدر غیر سیاسی ہوتا ہے لیکن صدر عارف علوی نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی پارٹی لائن کو فالو کیا۔ صدر علوی نے عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان رابطے کا کام کیا، جسے انہوں نے بعد ازاں قبول بھی کیا۔‘
نوشین نے کہا کہ حالیہ دنوں میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق تنازعے کے بعد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ شاید عارف علوی سے استعفیٰ لیا جا رہا ہے۔
عمومی طور صدر کا عہدہ خاموش ہی تصور کیا جاتا ہے لیکن گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ایوان صدر مسلسل توجہ کا مرکز بنا رہا۔ عارف علوی نے گذشتہ حکومت کو کچھ معاملات میں ٹف ٹائم دیا لیکن کافی معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے خراب تعلقات ہونے کے باوجود عارف علوی کے اسٹیبلشمنٹ سے کافی تعلقات ہیں۔ ان سے توقع بھی یہی کی جا رہی ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ مزید سنبھل کر چلیں گے۔‘