عالمی معیشتوں کی تنظیم جی 20 کا سربراہی اجلاس ستمبر کی نو اور 10 تاریخ کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ہو رہا ہے، جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، تاہم مہمانوں کے استعمال کے لیے لگژری کاروں کی کمی ہوگئی۔
بتایا جارہا ہے کہ جی 20 اجلاس کے پیش نظر بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز جیسی تقریباً 500 لگژری کاروں کی ضرورت ہے اور چونکہ دہلی میں ایسی لگژری کاروں کی کمی ہے، جنہیں کرائے پر دیا جاسکے، لہذا آس پاس کے شہروں سے لگژری کاروں کا انتظام کیا گیا ہے۔
لگژری کاروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی کار ایجنسیاں نئی گاڑیاں بھی خرید رہی ہیں۔
دہلی کی لگژری کار رینٹل کمپنی کے مالک ہرمن پنیت سنگھ پنیا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس 300 سے زائد کاریں ہے، جن میں 30 سے 50 لگژری کاریں ہیں۔
ہرمن کے مطابق ان میں انوا آئی کراس، انوا کرسٹتا، کیا کارنیوال، ٹویوٹا کیمری ہائبرڈ، بی ایم ڈبلیو 5 سیریز، بی ایم ڈبلیو 7 سیریز، مرسیڈیز ای کلاس، مرسیڈیز ایس کلاس، مرسیڈیز جی ایل ایس، مرسیڈیز ایس فار 50، آوڈی اے 6 میٹرک، آوڈی کیو 7، آوڈی کنورٹبل اور ان کے اوپر مرسیڈیز مے بیک ہے۔
بقول ہرمن: ’جو لوگ جی 20 اجلاس میں دہلی آرہے ہیں، انہیں لگژری کاروں کی ضرورت ہے۔ ہم انہیں اپنی لگژری کاروں کا بیڑہ دے رہے ہیں، جس میں انگریزی بولنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ ڈرائیور شامل ہوں گے۔
’ہمارے پاس برانڈ نیو مے بیک ہے، جسے ہم نے حال ہی میں خریدا ہے۔ اس کے لیے ہمیں عام طور پر ایک سے ڈیڑھ سال تک انتظار کرنا پڑتا تھا، مگر جی 20 کی وجہ سے وہ ہمیں چار سے پانچ ماہ میں مل گئی۔ اس کار کو آئندہ سال جنوری یا فروری میں آنا تھا، مگر یہ ابھی آگئی، کیونکہ ہمیں ضرورت تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تقریباً 10 سے 15 مرسیڈیز ایس کلاسز ابھی آنے والی ہیں۔ اس میں ہماری بھی دو مرسیڈیز ہیں، جو ایک دو دنوں میں آجائیں گی۔‘
ہرمن کے مطابق جی 20 اجلاس کے لیے لگژری کاریں دینے کی تیاریاں وہ بہت پہلے سے ہی کررہے تھے۔ ’جب سے خبر آئی تھی کہ جی 20 کا انعقاد انڈیا میں ہونے والا ہے۔ اس کا ہمیں انتظار تھا، ہمیں پتہ تھا کہ جی 20 آرہا ہے تو لگژری کاروں کی ضرورت پڑے گی۔ تب ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کتنی کاروں کی ضرورت پڑے گی یا کس طرح کی کاروں کی ضرورت پڑے گی لیکن اب ہم پوری طرح تیار ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہرمن مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف جی 20 کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی اور لگژری گاڑیاں خریدیں۔ ’ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں ہمارے پاس سب سے زیادہ جدید اور ماڈرن گاڑیاں ملیں گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’احتیاط کے طور پر ہم ممبئی سے اپنی کاریں منگوا رہے ہیں۔ ہماری کچھ کاریں وہاں پر ہیں۔ ہم اور بھی منگوا سکتے ہیں۔ کچھ وینڈرز ہیں، ان سے بھی لے سکتے ہیں۔‘
ہرمن فی الحال عوامی طور پر لگژری گاڑیاں کرائے پر نہیں دے رہے۔ ان کے مطابق: ’جی 20 کی وجہ سے ہوٹل انڈسٹری اور کار رینٹل انڈسٹری میں کافی پابندیاں آئی ہیں۔ عام دنوں کی طرح ان چار پانچ دنوں اب کاروں کو کرائے پر نہیں دیا جاسکتا۔‘
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ لگژری کاروں کا جس طرح کرایہ باہر سے آتا ہے، یہاں نہیں ملتا۔ ’جیسے دبئی میں مرسیڈیز مے باک کا کرایہ 10 گھنٹوں کے لیے 77 ہزار روپے جبکہ ہم آٹھ گھنٹوں کے لیے 60 ہزار روپے چارج کرتے ہیں، حالانکہ انڈیا میں لگژری کاریں دگنی قیمتوں پر آتی ہیں۔‘
ہرمن نے مزید بتایا: ’ہماری لگژری گاڑیوں میں کس ملک کے ہائی پروفائل مہمان بیٹھیں گے، یہ ہمارے لیے بھی ایک راز ہے۔‘
متعدد ہوٹلوں کے مالک کلیم الحفیظ بھی جی 20 اجلاس کے سلسلے میں مصروف ہیں۔ لگژری کاروں کی بڑھتی ضرورت کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جتنے بھی فائیو سٹار ہوٹل ہیں، وہ برانڈ نیو کار استعمال کرتے ہیں۔
’وہ ٹریول ایجنسیوں سے کہتے ہیں۔ ٹریول ایجنسیوں نے ابھی نئی نئی کاروں کو خریدا ہے یا دوسرے شہروں سے منگوایا ہے۔ اب آپ کسی بھی ہوٹل میں جائیں تو ان کے پاس مہمانوں کے استعمال کے لیے اچھی اور لگژری کاریں ہیں۔‘
ان کے مطابق جی 20 کی وجہ سے لگژری کاروں کا کرایہ بھی بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ بقول کلیم: ’سپلائی کم ہے اور ڈیمانڈ زیادہ ہے تو کرایہ فطری طور پر بڑھ جاتا ہے۔‘
لگژری کار کے ڈرائیور رمیش چند موریہ بھی جی 20 اجلاس کے دوران ڈیوٹی کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ممکن ہے کہ ڈیوٹی کا وقت بڑھ جائے، تاہم اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ کبھی دو گھنٹہ کام کرتے ہیں، کبھی 10 گھنٹے۔ کبھی 24 گھنٹے بھی کام کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ڈیوٹی کے حساب سے وقت گھٹتا بڑھتا ہے اور ہمارا حق المحنت بھی۔‘