دنیا کی 20 بڑی معیشوں کے گروپ جی 20 کے ہفتے کو نئی دہلی میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے افتتاحی دن ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں یوکرین میں جنگ پر روس کی مذمت نہیں کی گئی۔ تاہم تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔
میزبان ملک انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ یہ اعلامیہ سمٹ کے پہلے دن منظور کر لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اتفاق رائے حیرت انگیز طور پر سامنے آیا کیونکہ گروپ یوکرین کی جنگ پر تقسیم کا شکار ہے۔ اس سے قبل مغربی ممالک نے اعلامیے میں روس کی سخت مذمت پر زور دیا تھا جب کہ دیگر ممالک نے وسیع تر اقتصادی مسائل پر توجہ مرکوز رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ہم تمام ریاستوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں بشمول علاقائی سالمیت اور خودمختاری، بین الاقوامی انسانی قانون، اور کثیرالجہتی نظام کو برقرار رکھیں جو امن اور استحکام کا تحفظ کرتا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’ہم تمام متعلقہ اور تعمیری اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہیں جو یوکرین میں ایک جامع، منصفانہ، اور پائیدار امن میں مدد گار ہیں۔‘
بیان میں روس کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ’جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا استعمال کی دھمکی ناقابل قبول ہے۔‘
اعلامیے میں یوکرین اور روس سے اناج، خوراک اور کھاد کی محفوظ فراہمی کے لیے بحیرہ اسود معاہدے پر عمل درآمد پر بھی زور دیا گیا۔
ماسکو نے جولائی میں اس معاہدے سے دست برداری اختیار کی تھی۔
وزیر اعظم مودی نے نئی دہلی میں ہونے والے اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگرے سربراہان سے کہا کہ ’تمام ٹیموں کی محنت کے نتیجے میں ہمیں جی 20 سمٹ کے اعلامیے پر اتفاق رائے حاصل ہوا ہے۔ میں اس اعلامیے کو اڈاپٹ کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ گروپ نے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے قرض کے خطرات کو ’ایک موثر، جامع اور منظم انداز میں‘ حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی نیا ایکشن پلان نہیں دیا گیا۔
گروپ نے کہا کہ رکن ممالک نے کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں کو مضبوط اور ان میں اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا ہے جب کہ اس نے کرپٹو کرنسیوں کے حوالے سے سخت ضوابط کی تجویز کی بھی منظوری دی۔
گروپ نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دنیا کو قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کی منتقلی کے لیے سالانہ چار کھرب ڈالر کی کم لاگت فنانسنگ کی ضرورت ہے۔
بیان میں کوئلے سے بجلی بنانے کی مرحلہ وار کمی کی کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیا گیا۔ اس سے قبل افریقی یونین نے جی 20 کے نئے رکن کے طور پر اپنی نشست باضابطہ طور پر سنبھال لی۔
اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، برطانوی وزیراعظم رشی سونک، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گونتیرش سمیت دیگر عالمی رہنما شریک ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افریقی یونین کی جی 20 میں شمولیت سے تنظیم کی توسیع نریندر مودی کے لیے ایک قابل ذکر سفارتی فتح ہے جنہوں نے اس سال سربراہی اجلاس کی میزبانی کے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی سیاست دان کے طور پر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی ہے۔
ہفتے کو اجلاس کے آغاز پر اپنی افتتاحی تقریر سے قبل نریندر مودی نے افریقی یونین اور کوموروس کے صدر ازالی اسومانی کو گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔
مودی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا: ’انڈیا نے افریقی یونین کو جی 20 کی مستقل رکنیت دینے کی تجویز پیش کی۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر ہم سب کا اتفاق ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سب کی منظوری کے ساتھ میں افریقی یونین کے سربراہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جی 20 کے مستقل رکن کے طور پر اپنی نشست سنبھالیں۔‘
جس کے بعد ازالی اسومانی نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی دعوت پر عالمی رہنماؤں کے درمیان اپنی نشست سنبھالی۔
اس کے بعد نریندر مودی نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا: ’دنیا میں بھروسے کا ایک بہت بڑا بحران ہے۔ جنگ نے اعتماد کے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اگر ہم کووڈ 19 کو شکست دے سکتے ہیں تو ہم باہمی اعتماد کے اس بحران کو بھی فتح کر سکتے ہیں۔‘
انڈیا، سعودی عرب، امریکہ اور یورپی یونین کی ریل، بندرگاہ ڈیل کا امکان
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ہفتے کو نئی دہلی میں جی 20 اجلاس کے موقعے پر مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والے کثیر القومی ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنے کے لیے جی 20 کے ترقی پذیر ممالک کے لیے واشنگٹن کو متبادل پارٹنر اور سرمایہ کار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ میں قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے نئی دہلی میں جی 20 اجلاس کے موقعے پر صحافیوں کو بتایا کہ اس معاہدے سے خطے کے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو فائدہ پہنچے گا اور اس سے عالمی تجارت میں مشرق وسطیٰ کے لیے اہم کردار سامنے آئے گا۔
امریکی حکام کے مطابق اس منصوبے کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو آپس میں ریلوے کے ذریعے جوڑنا اور انہیں بندرگاہ کے ذریعے انڈیا سے جوڑنا ہے، جس سے شپنگ کے وقت، اخراجات اور ایندھن کے استعمال میں کمی کر کے خلیج سے یورپ تک توانائی اور تجارت کے بہاؤ میں مدد ملے گی۔
جون فائنر نے کہا کہ معاہدے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر یورپی یونین، انڈیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور دیگر جی 20 شراکت دار دستخط کریں گے۔
ان کا کہنا تھا: ’ہمارے خیال میں ان اہم خطوں کو جوڑنا ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘ فی الوقت معاہدے کی مالیت کی فوری طور پر کوئی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
پاکستان علما کونسل کی اپیل
کونسل کے چیئرمین طاہر محمود اشرفی نے جی 20 قیادت سے اپیل کی ہے وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اور انڈیا کے دیگر علاقوں میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں کیونکہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مسلم امہ سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان اور G20 میں شامل مسلم ممالک سے امید رکھتی ہے کہ وہ دورہ بھارت کے دوران ہندوستان کی مسلم عوام اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ہندوستان کی حکومت سے ضرورت بات کریں گے۔‘