افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت بننے کے بعد کابل میں اپنا سفیر تعینات کرنے والا چین پہلا ملک ہے۔ اس حوالے سے بدھ کو کابل کے صدارتی محل میں ایک باظابطہ تقریب بھی منعقد ہوئی۔
افغانستان کی عبوری وزارت داخلہ نے ایک بیان میں بتایا کہ چینی سفیر ڈاکٹر ژاؤ کنگ نے تقریب میں سفارتی اسناد عبوری وزیر اعظم ملا حسن اخوند کو پیش کیں، جو قبول کر لی گئیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسناد کی قبولیت کے بعد چینی سفیر نے باضابطہ کابل میں کام کا آغاز کردیا۔ بیجنگ نے اب تک سفیر کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا۔
۱/۸ــ محترم رئیس الوزراء اعتمادنامه سفیر جدید چین را پذیرفت
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) September 13, 2023
محترم الحاج ملا محمد حسن آخند رئیس الوزراء امارت اسلامی افغانستان قبل از ظهر امروز اعتماد نامه آقای جاو شینگ سفیر جدید چین برای افغانستان را طی مراسم تشریفاتی، پذیرفت. pic.twitter.com/I33KXnBxmu
تاہم کابل میں چینی سفارت خانے نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ چین دنیا سے افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کی عزت کرنے کی درخواست کرتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ چین ’افغان عوام کی‘ اصول پر مبنی خود مختاری اور آزادی کی بنیاد پر افغانستان سے بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔
بیان کے مطابق: ’بعض ممالک کو افغانستان میں جو کچھ ہوا، اس سے سبق سیکھنا چاہیے، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے دوغلی پالیسی کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
’افغانستان کو غیر مشروط طور پر ان کے بیرونی اثاثے واپس، پابندیاں ہٹانے اور افغانستان کی دوبارہ آباد کاری اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اس بیان میں نئے سفیر کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی، لیکن خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ مذکورہ تعیناتی سفیروں کے تبادلے کی ایک ’نارمل روٹیشن‘ کا حصہ ہے اور چین کا افغانستان کے ساتھ تعلقات واضح ہیں۔
چینی سفیر کی ’تعیناتی‘ کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے چین کا فیصلہ دیکھا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ چین نے اگر سفیر تعینات کرنے کیا فیصلہ کیا ہے تو یہ انہوں نے اپنے مفاد میں کیا ہوگا۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، ’جہاں تک پاکستان کی طرف سے سفیر تعینات کرنے کی بات ہے(افغانستان میں)، تو میں واضح کردوں کہ افغانستان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن وہی ہے جو پہلے تھی۔‘
جولائی2022 میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں اس وقت کے ترجمان عاصم افتخار نے کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو خطے( میں موجود دیگر ممالک) کے مشورے سے تسلیم کریں گے اور ’سولو فلائٹ‘ نہیں کریں گے، جس طرح ہم نے 90 کی دہائی میں افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرنے میں کیا تھا۔
کیا کسی بھی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود ایک ملک وہاں پر اپنا سفیر تعینات سکتا ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر اور خارجہ پالیسی میں پی ایچ ڈی کرنے والے سید حسین شہید سہروردی سے بات کی، جنھوں نے بتایا کہ چین کی افغانستان میں حکومت بغیر تسلیم کیے سفیر بھیجنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا: ’دنیا میں ایسا کوئی مثال موجود نہیں کہ کسی ملک نے ایک ایسے ملک میں مستقل سفیر بھیجا ہو جسے ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی قوانین کی کتابیں اس مسئلے پر بالکل خاموش ہیں کیونکہ عالمی قانون کے مطابق کسی بھی ملک میں مستقل سفیر بھیجنے سے پہلے اس ملک کی حکومت کو تسلیم کرنا لازمی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دو پالیسیاں ہوتی ہیں جس میں ایک کو ڈی جیوری اور دوسری کو ڈی فیکٹو کہتے ہیں۔
حسین شہید کے مطابق ڈی جیوری کسی حکومت کو مستقل تسلیم کرنے کو کہتے ہیں جبکہ ڈی فیکٹو عارضی طور پر تسلیم کرنے کو کہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عارضی تسلیم کرنا اس کو کہتے ہیں کہ ایک ملک کسی دوسرے ملک کی حکومت کو تسلیم تو کرے لیکن سرکاری سطح پر اس کو قبول نہ کیا ہو۔
’اس صورت میں مستقل سفیر نہیں بھیجا جاتا لیکن ڈی جیوری یعنی سرکاری سطح پر تسلیم کرنے کے بعد وہاں مستقل سفیر بھیجا جاتا ہے۔ ‘
ایک اور سوال کہ اگر کوئی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا تو وہاں پر دوسرے ملک اپنے سفارت خانے کس طرح چلاتے ہیں؟ پر حسین شہید نے بتایا کہ جب تک حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو وہاں پر دوسرے ملک ’چارج ڈی افیئرز‘ یا ناظم الامور تعینات کرتے ہیں جو اس ملک میں مشن کی سرپرستی کرتے ہیں۔
حسین شہید کے مطابق اگر ناظم الامور موجود نہیں تو خصوصی ایلچی رکھا جاتا ہے لیکن وہ ایلچی اس ملک میں نہیں رہتا بلکہ کسی ضروری کام یا ملاقات کے لیے ہی اس ملک میں جاتا ہے۔
بغیر تسلیم کیے ہوئے مستقل سفیر کی تعیناتی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے حسین شہید نے بتایا کہ ایک تو افغانستان اور چین دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کے تعلقات اچھے ہیں اور افغانستان یہی پیغام دے رہا ہے کہ اگر چین جیسے ملک نے اپنا سفیر تعینات کیا ہے تو دوسرے ملک بھی ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چین افغانستان کے ساتھ مستقبل میں بہتر تعلقات بنانا چاہتے ہیں اور افغانستان کو باور کرانا چاہتے ہے کہ مشکل وقت میں چین نے اس کا ساتھ دیا۔
کیا اقوام متحدہ چینی سفیر کی تعیناتی پر اعتراض کر سکتا ہے؟
اس حوالے سے حسین شہید نے بتایا کہ اقوام متحدہ کا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ایسے فورمز جہاں چین کے ساتھ دیگر ممالک موجود ہوں تو وہاں اعتراض بھی اٹھ سکتا ہے اور حمایت بھی ممکن ہے۔
’چین اگر کسی اتحاد میں شامل ہے، تو اس اتحاد میں موجود دیگر ممالک اعتراض کر سکتے ہیں کہ بغیر تسلیم کیے اس نے افغانستان میں اپنا سفیر کیوں تعینات کیا جبکہ بعض ممالک اس اقدام کی حمایت بھی کر سکتے ہیں۔‘
کسی بھی ملک کو تسلیم کرنے کے تقاضے کیا ہے؟
لندن سکول آف اکنامکس میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق بین الاقوامی سطح پر کسی ریاست کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا، اور بغیر تسلیم کیے اس ملک سے سفارتی تعلقات رکھنا ایک ایسا موضوع ہے جس پر عالمی ماہرین نے کم سوچا ہے۔
مقالے کے مطابق کسی بھی ریاست کو تسلیم کرنا ایک پیچیدہ موضوع ہے اور پر ایک ریاست اپنی خواہش کے مطابق کسی دوسری ریاست کو تسلیم کرتی ہے لیکن تسلیم کرنا کسی ریاست کی وجود کے لیے شرط نہیں۔
تسلیم کرنے کے قوانین 1933 کے مونٹی ویڈیو کنونشن میں درج ہیں اور مقالے کے مطابق ریاست کو تسلیم کرنے کے تقاضے یہ ہیں کہ اس ریاست کی آبادی ہو، زمین ہو، وہاں پر ایک خود مختار حکومت قائم ہو اور زبرستی کوئی حکومت قائم نہ کی گئی ہو۔
یورپی یونین نے کسی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کچھ نئے ضابطے شامل کیے ہیں، جس میں انسانی حقوق کے کچھ اشارعے بھی شامل ہیں کہ وہ ریاست ان حقوق کی کتنی پاسداری کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تسلیم کیے بغیر سفارتی تعلقات کے حوالے سے مقالے میں مزید لکھا گیا کہ کوئی بھی ریاست غیر تسلیم شدہ ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کر سکتی ہے اور اس کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں، جیسے اگر کسی ریاست میں جنگ ہو، تو اس کو روکنے کے لیے سفارتی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔
مقالے میں لکھا گیا کہ کسی ریاست کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا اس ریاست کی پوزیشن تبدیل تو نہیں کر سکتی لیکن تسلیم کرنے سے وہ ریاست عالمی برادری کا حصہ بنی جاتی ہے۔
ریاست کو تسلیم کرنے کے اقسام کیا ہے؟
ایک عام طریقہ، مقالے کے مطابق، یہ ہے کہ کچھ ریاستیں مل کر کسی دوسری ریاست کی آزادی کو تسلیم کریں، تو وہ ریاست تسلیم کی جاتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ریات دوسری ریاست کے ساتھ معاہدہ کر کے اس معاہدے میں نئے ریاست کی تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔
تاہم ریاست کو تسلیم کرنے کا ایک عام طریقہ یہ ہے کہ ایک ریاست کسی اخباری بیان اور پریس کانفرنس میں کسی دوسری ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور اس ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کرے، اس کو ’بائی لیٹرل ریکگنیشن‘ کہا جاتا ہے۔
مقالے کے مطابق، ’کسی ایسی ریاست کو تسلیم نہیں کیا گیا ہو لیکن اگر کسی دوسری ریاست نے وہاں پر اپنا سفارت خانہ قائم کر کے عارضی یا مستقل سفیر بھیج دیا ہو، تو سمجھا جائے گا کہ ریاست کو ’بائلیٹرلی‘ تسلیم کر لیا گیا۔‘
تاہم اس صورت میں بھی، مقالے کے مطابق ایک کو ’ایکسپلیسیٹ‘ اور ایک کو ’ایمپلائڈ‘ ریکگنیشن کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ملک نے اس ریاست میں سفارت خانہ قائم کر کے وہاں سفیر بھی بھیجا تو اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ اس ریاست کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
ائمپلائڈ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آیا جس سے واضح طور پر اس ریاست کو تسلیم کرنے کا پتہ لگ سکے۔