دہلی میں دسمبر کے آغاز سے ہی سردی عروج پر چلی جاتی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں ہوتی اور سردی سے بچنے کے وسائل بھی نہیں۔
12 دسمبر کو رات ہوتے ہی دہلی میں درجہ حرارت نیچے چلا گیا اور 4.5 تک پہنچ گیا۔
یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ محمد رضوان جیسے کئی لوگ جنہیں دہلی میں سر چھپانے کی جگہ نہیں ملی، انہوں نے سڑکوں پر ہی اپنا بستر بچھا لیا۔ ایک بوسیدہ کمبل میں دہلی کی سردی کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
رضوان کے لیے حکومت کے ذریعے شیلٹر ہوم میں جانا بھی آسان نہیں تھا کیونکہ ان کا شناختی کارڈ کھو گیا ہے، جس کے بغیر حکومت کے ذریعے بنائے گئے رین بسیروں میں داخلہ مشکل ہوتا ہے۔
سڑکوں پر سوتے افراد میں کمبل وغیرہ تقسیم کرنے والے دانیال اشرف بتاتے ہیں کہ ’دہلی ریلوے اسٹیشن کی جانب سے جیسے ہی آپ شہر کی طرف چلیں گے، تو سڑکوں پر جا بجا کمبلوں میں چھپ کر بچے، بوڑھے، خواتین اور ہر عمر کے لوگ سردی سے مقابلہ کرتے نظر آئیں گے۔
’ان میں مزدور، غریب، ضرورت مند اور حالات کے مارے لوگ مل جائیں گے۔ُ‘
انہوں نے کہا: ’دہلی کی یہ تصویر بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اتنے بڑے ملک کی قومی دارالحکومت میں، جہاں رہنا اور چھت کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہوتا، وہاں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں سردی میں بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
بے گھر افراد کے ساتھ کام کرنے والے سنیل کمار کہتے ہیں کہ ’ان حالات کو دیکھ کر حکومت کو سڑکوں پر سونے والے افراد کی پریشانیوں کو سمجھنے اور ایمانداری سے انہیں چھت فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
’لیکن حکومت بڑے پیمانے پر شیلٹر ہومز بنانے کے بجائے ان غریبوں اور چھت سے محروم افراد کی تعداد کم بتاتی ہے۔‘
سنیل کے مطابق ’2010 میں جو مردم شماری ہوئی اس کے مطابق 46,763 لوگ دہلی کی سڑکوں پر رہتے ہیں۔ وہیں ہم اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کا سروے دیکھیں تو وہ کہتا ہے کہ 65,000 لوگوں کو ہم نے میپ کیا ہے اور 55,955 لوگوں کی تعداد ہے جو دہلی کی سڑکوں پر رہتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف دہلی کے ہیں۔
’حقیقت میں تعداد اس سے زیادہ ہے کیونکہ جس طریقے سے اربنائزیشن ہوئی ہے اور شہری زندگی کو بڑھاوا ملا ہے اور لوگ گاؤں سے شہروں میں آ رہے ہیں، اس کے باوجود دہلی اربن شیلٹر بورڈ، جو کہ شیلٹر ہوم کی نگرانی کرتا ہے، کہتا ہے کہ دہلی کی سڑکوں پر صرف 16,760 لوگ ہی رہتے ہیں۔ وہیں اگر ہم موازنہ کریں 1976 کی رپورٹ سے، تو 19,163 اور 16,760 تو اپنے آپ میں یہ بے ایمانی پکڑی جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دہلی کے اندر جو ہم پچھلے 20-25 سال سے دیکھتے آئے ہیں، جو سروے ہیں یا اس میں ہم جب سروے کرتے ہیں، تو ایک شخص پر تین افراد چھوٹ جاتے ہیں۔
’اور اس کے علاوہ اگر ہم دیکھیں تو قریب دہلی کی سڑکوں پر دس ہزار سے زیادہ خواتین ہیں، بچے ہیں، بزرگ ہیں، جو کہ سرد ہواؤں کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور ہر سال سرکار سردی میں جاگتی ہے۔ یہ مسئلہ ایک سردی کا نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے، اس سے ہمیں سارا سال نمٹنا چاہیے تاکہ لوگ بے گھر نہ ہوں۔ ان کے لیے مسلسل چھت، روٹی، کپڑا، مکان کا انتظام کیا جائے۔‘
شیلٹر بورڈ کے ایکشن پلان 2024-25 کے مطابق دہلی میں ابھی فی الحال 197 نائٹ شیلٹر ہیں، جو آپریشن میں ہیں اور ان میں 7,092 لوگوں کو رات گزارنے کا موقع فراہم کرنے کی صلاحیت ہے۔
تاہم سنیل بتاتے ہیں کہ یہ نائٹ شیلٹرز سرکار عارضی طور پر تیار کرتی ہے، جب کہ رین بسیرے جو پکی عمارتوں میں ہیں سال بھر لوگوں کے کام آتے ہیں، لیکن یہ تعداد بہت کم ہے۔ خاص طور پر خواتین کے لیے بہت مسائل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’فی الحال 18 نسوانی شیلٹر ہوم ہیں، جو کہ مستقل نہیں ہیں، صرف ایک مستقل عمارت میں ہے، باقی پورٹا کیبن کے اندر ہیں۔ جب پورٹا کیبن کی بات کرتے ہیں، وہ گرمی میں اتنے گرم ہوتے ہیں کہ جیسے اوون میں آپ رہ رہے ہوں اور سردی میں اتنے ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی کے ساتھ ایسی بہت سی خواتین ہیں جو حفاظت کے نظریے سے شیلٹر ہوم میں جانا پسند نہیں کرتیں۔ اب ایسے حالات میں وہ بھی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔‘
سنیل نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت شیلٹر ہومز بنانے میں سنجیدگی نہیں دکھاتی۔ کچھ تو انہوں نے G20 میں دہلی کو خوبصورت دکھانے کے لیے توڑ دیے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ بے گھر افراد کے لیے شناختی کارڈ کی شرط ہے۔
’دہلی پولیس کہتی ہے کہ بغیر شناختی کارڈ کے آپ کو شیلٹر ہوم میں نہیں رکھنا ہے لیکن دوسری طرف سڑک پر سونے والوں پر کارروائی بھی ہوتی ہے۔ ان حالات میں کئی لوگ سڑکوں پر مر جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ضروری ہے کہ سرکار اس طرف دیکھے کہ جو لوگ سڑک پر دم توڑ رہے ہیں، چاہے وہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہو یا موسم کی وجہ سے، تو کہیں نہ کہیں ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ سرکار اس طرف توجہ دے۔
’معذور افراد کے لیے تو دہلی کے اندر صرف ایک شیلٹر ہوم ہے، جبکہ بڑی تعداد میں معذور افراد سڑکوں پر رات گزارتے مل جائیں گے۔‘
ٹی پی آر فاؤنڈیشن، جو کہ سڑکوں پر سونے والوں میں سردیوں سے بچاؤ کی اشیا تقسیم کرتی ہے، اس کے کارکن دانیال اشرف کے مطابق ’سردیوں میں بے گھر لوگ جو پلوں کے نیچے رہتے ہیں، فٹ پاتھ پر رہتے ہیں یا ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر دکھائی دیتے ہیں، انہیں ہم یہ سامان دیتے ہیں، جس میں کمبلوں کے ساتھ ساتھ ایک ٹوپی اور موزے رکھتے ہیں، جو ایک انسان کو سردی سے اپنے آپ کو بچانے میں مدد کرتا ہے۔‘