جن کھڑکیوں سے خواتین کو جھانکا جا سکے انہیں بند کیا جائے: طالبان

افغان طالبان کے ترجمان کی طرف سے ہفتے کو دیر گئے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، نئی عمارتوں میں ایسی کھڑکیاں نہیں ہونی چاہئیں جن کے ذریعے ’صحن، باورچی خانے، پڑوسیوں کے کنویں اور دیگر جگہوں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں عموماً خواتین استعمال کرتی ہیں۔‘

23 اکتوبر 2024 کو لی گئی اس تصویر میں افغان خواتین کو کابل کے دشت برچی محلے میں مسمار کی جانے والے رہائشی عمارت کے پار سڑک پر چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں رہائشی عمارتوں میں ایسی کھڑکیوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی گئی ہے جن کے ذریعے افغان خواتین کے زیر استعمال مقامات کو دیکھا جا سکتا ہو، اور کہا ہے کہ اگر ایسی کوئی کھڑکیاں ہیں تو انہیں بند کر دیا جائے۔

طالبان حکومت کے ترجمان کی طرف سے ہفتے کو دیر گئے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، نئی عمارتوں میں ایسی کھڑکیاں نہیں ہونی چاہئیں جن کے ذریعے ’صحن، باورچی خانے، پڑوسیوں کے کنویں اور دیگر جگہوں کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں عموماً خواتین استعمال کرتی ہیں۔‘

حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر پوسٹ کیے گئے حکم نامے کے مطابق، ’خواتین کو کچن، صحن میں کام کرتے ہوئے یا کنوؤں سے پانی جمع کرتے ہوئے دیکھنا فحش حرکتوں کا باعث بن سکتا ہے۔‘

میونسپل حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کو تعمیراتی مقامات کی نگرانی کرنی ہو گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پڑوسیوں کے گھروں میں جھانکنا ممکن نہ ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسی کھڑکیاں موجود ہونے کی صورت میں، مالکان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ دیوار تعمیر کریں یا ’پڑوسیوں کو ہونے والی پریشانیوں سے بچنے کے لیے‘ ان کھڑکیوں کا مستقل بند کرنے کا بندوبست کریں۔

اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے، عوامی مقامات سے خواتین کو بتدریج ہٹا دیا گیا ہے، جس سے اقوام متحدہ کو انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ ’جنسی نسل پرستی‘ کی مذمت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

طالبان حکام نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے پرائمری کے بعد کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے، روزگار پر پابندی لگا دی ہے اور پارکوں اور دیگر عوامی مقامات تک رسائی کو روک دیا ہے۔

طالبان حکومت کے اسلامی قانون کے انتہائی سخت اطلاق کے تحت ایک حالیہ قانون خواتین کو عوامی سطح پر گانے یا شعر سنانے سے بھی منع کرتا ہے۔ یہ انہیں گھر سے باہر اپنی آوازوں اور جسموں کے ’پردے‘ کی بھی ترغیب دیتا ہے۔

کچھ مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سٹیشنوں نے بھی خواتین کی آوازیں نشر کرنا بند کر دیا ہے۔

طالبان انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا اسلامی قانون افغان مردوں اور عورتوں کے حقوق کی ’ضمانت‘ دیتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا