کسی بھی معاشرے میں عدلیہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور پاکستان میں عدلیہ جمہوریت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔
عدلیہ کا کام معاشرے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ انصاف کی سربلندی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں عدلیہ کا کردار اکثر متنازع رہا ہے خاص طور پر گذشتہ کچھ عرصے میں صورت حال مزید گمبھیر ہوئی ہے۔
انہی حالات میں پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں ایک اور باب کھل رہا ہے۔ آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال صاحب اپنے عہدے کی میعاد مکمل کرکے رخصت ہو رہے ہیں، وہ اپنی مدت ملازمت کی کیا ’لیگیسی‘ چھوڑ کر جا رہے ہیں، یہ پوری قوم کے سامنے ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بطور چیف جسٹس ایک سال اور چھ ماہ کے دوران متعدد اہم فیصلے دیے اور کئی مرتبہ کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے۔
خاص طور پر ان پر سیاسی معاملات والے کیسز میں خاصی تنقید ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقسیم اور گروپ بندی کا تاثر بھی زور شور سے جاری رہا۔ ان کے دور میں کئی اہم آئینی و انتظامی معاملات سے متعلق کیسز تنازعات کا شکار ہوئے۔ خاص طور پر ان کی سیاسی کیسز میں دلچسی قابل غور تھی اور یہ تاثر بھی رہا کہ وہ کسی خاص سیاسی پارٹی سے قریب رہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جو کچھ ہوا اس کی بحث لمبی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے بھی چیلنجز کی ایک لمبی فہرست ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا تعلق نہ صرف پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے بلوچستان سے ہے بلکہ وہ تحریک پاکستان کے نہایت سرگرم رکن اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے صاحب زادے بھی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پانچ اگست 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ انہیں پانچ ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
ان کے کیریئر کے دوران میموگیٹ، سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن سمیت دیگر اہم کیسز شامل ہیں۔
نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی ایک ایسے وقت میں اپنے عہدے کا چارج سنبھال رہے ہیں جب پاکستان کی عدلیہ مکمل طور پر متنازع ہوچکی ہے۔
ان کے پیشرو جسٹس عمرعطا بندیال کی تنازعات سے بھرپور مدت ملازمت نے پاکستان میں عدلیہ کے کردار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023، سویلنز کے فوجی عدالتوں میں مقدمات، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس سمیت دیگر اہم مقدمات سنے تاہم ان مقدمات کے فیصلے نہ ہوسکے۔
اب ان کیسز کا فیصلہ کرنا نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے کندھوں پر ہی آن پڑا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے جو اہم چیلنجز ہوں گے، ان میں سب سے بڑا اور اہم ترین چیلنج ملک میں انتخابات کا انعقاد ہے کیونکہ اس سلسلے میں گھوم پھر کر معاملات سپریم کورٹ کے سامنے ہی آئیں گے۔
ایک طرف الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے باعث الیکشن کا انعقاد 90 روز میں ہونا ناممکن دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کی جلد تاریخ کا پریشر اور صدر کی جانب سے لکھے گئے خط نے بھی نئے سوالات جنم دے دیے۔
اسی طرح پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے نظر ثانی پر سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر ہے، اب اس پر بھی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی کرنا ہے۔
اسی طرح ایک اور معاملہ عدالتی اصلاحات کا ہے اور اسی سے منسلک کیس ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کا، جو کہ قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس پہلا کیس بھی ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سلسلے میں ان کے خیالات بھی واضح ہیں جس کی مثال ان کا ازخود نوٹس کے اختیار پر نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ ایک شخص یعنی چیف جسٹس کے پاس حد سے زیادہ اختیارات نہیں ہونے چاہییں، اب جب یہ کیس ان کے سامنے آرہا ہے تو ان کے ریمارکس کیا ہوں گے وہ بھی قابل غور ہوگا۔
اسی طرح اعلیٰ عدلیہ میں زیرالتوا کیسز بھی ایک اہم معاملہ ہے، جو جسٹس بندیال کے دور میں مزید بڑھ چکے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایک اور چیلنج یہ بھی ہوگا کہ وہ تحریک انصاف سے متعلق کیسز میں کیا فیصلے دیں گے کیونکہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کی کافی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، جو اس وقت جیل میں ہیں، ان کے دورِ حکومت میں قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی لایا گیا جس میں پی ٹی آئی چیئرمین بذات خود شامل تھے۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ عمران خان سے متعلق کیسز میں کیا فیصلے دیں گے کیونکہ تحریک انصاف اور ان کے وکلا نے جب جب ان کے خلاف فیصلے آئے ہیں، عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر پریشرائز کیا ہے، اب اس صورت حال میں قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
قاضی فائز عیسٰی سے ن لیگ کی امیدیں بھی وابستہ ہیں کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اپنی وطن واپسی جانے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی موجودگی میں نہیں چاہتے تھے، اب چونکہ وہ نہیں ہوں گے تو امید ہے وہ واپس آجائیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے مختلف مقدمات میں فیصلوں، بینچز کی تشکیل اور فل کورٹ تشکیل نہ دینے پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنے، اب کیا ان کے جانشین قاضی فائز عیسیٰ بھی انہی کی طرح سیاسی تنقید کا نشانہ بنیں گے یا پھر عدلیہ کا کھویا ہوا وقار بحال کرکے پاکستان کے عوام کو نئی امید دلائیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔