نیب ترامیم کالعدم ہونے سے نواز شریف کی واپسی متاثر نہیں ہو گی: ن لیگ

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب قوانین میں کچھ ترامیم کالعدم قرار دیے جانے پر ن لیگ کے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی اس فیصلے سے متاثر نہیں ہو گی۔

نواز شریف 11 مئی، 2022 کو ویسٹ لندن میں ایک مقام سے روانہ ہو رہے ہیں (اے ایف پی/ ڈینیل لیل)

سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں حال ہی میں کی گئی ترامیم میں سے متعدد کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے سے ان کے لیڈر نواز شریف کی لندن سے پاکستان واپسی کا فیصلہ متاثر نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے آج پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عوامی عہدہ رکھنے والے سیاست دانوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال کرنے کا کہا ہے۔

بینچ نے، جس میں چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل تھے، اس معاملے پر 50 سے زائد سماعتوں کے بعد پانچ ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا، یعنی تین رکنی بینچ کے اس فیصلے کو دو ججوں کا اکثریت فیصلہ کہا جائے گا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب ریفرنس دائر کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی بدعنوانی کی حد کی شق کو بھی کالعدم کر دیا یوں عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال ہو گئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ’سویٹ اینڈ شارٹ‘ فیصلہ سنائیں گے۔ چیف جسٹس بندیال 16 ستمبر کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کی وطن واپسی متاثر نہیں ہوئی: ن لیگ

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے نواز شریف کی وطن واپسی متاثر نہیں ہو گئی۔

جمعے کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ حتمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 21 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان پارٹی صدر شہباز شریف نے کیا ہے اور نواز شریف ایک آزاد شہری کے طور پر وطن واپس لوٹیں گے اور حفاظتی ضمانت حاصل کریں گے۔

ان کے بقول: ’نواز شریف کی قانونی مشکلات دور کرنے کے لیے ایک قانونی ٹیم کام کر رہی ہے کیوں کہ وہ عدالت اور اس وقت کی حکومت کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان کی رائے تھی کہ نیب کا یہ ’بے رحم‘ قانون ختم نہ کیا جائے تاکہ اسے ہمارے خلاف استعمال کرنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی اس کا مزہ چکھے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم یہ قانون بھگت چکے ہیں اور اب یہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو مبارک ہو کیوں کہ اب انہیں ضمانت بھی نہیں ملے گی اور انہیں 90، 90 دنوں کے ریمانڈ کاٹنا ہوں گے۔‘

ان کے بقول: ’عمران خان کے خلاف 13 کیسز ہیں، وہ انکوائریاں بھگتیں اور اس کا مزہ لیں۔ اب دیکھتے ہیں انہیں تھوک کے حساب سے ضمانتیں کیسے ملتی ہیں۔‘

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس قانون کی بحالی کے بعد پی ٹی آئی اب یہ نہیں کہہ سکے گی کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے سابق حکمران جنتا کے خلاف کرپشن کے مقدمات بحال کر دیے ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس معاملے نے میثاق جمہوریت کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یہ نہیں مانتی کہ نیب قانون میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔‘

سابق وزیر اطلاعات کے مطابق: ’اکثریت یہ چاہتی ہے کہ نیب کیسز میں شفافیت اور غیر جانبداری لائی جائے۔ اس میں عدالتی مقدمات کی لائیو کوریج اور ریمانڈ کی دفعات شامل ہونی چاہییں۔‘

نیب ترامیم بل میں کیا تھا؟

جون 2022 میں سابق اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔

منظوری نہ ملنے پر بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا۔ ترمیمی بل میں کہا گیا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کی گئی۔

لاہور میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں اسے ’بدعنوان سیاست دانوں کی صفائی کا عمل‘ قرار دیا۔

ترمیم کے مطابق قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا۔

ترمیمی قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

نیب ترامیم سے فائدہ کس کس کو ہوا؟

اس کیس میں نیب نے پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومتوں کے دوران نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں پیش کی تھی۔

نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حالیہ نیب ترامیم سے سابق وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے فائدہ اٹھایا۔

رپورٹ کے مطابق نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کا بیٹا بھی شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان