آئینی مسائل میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے عدالتی سال کی فل کورٹ تقریب سے الوداعی خطاب میں کہا: ’جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے دو فروری 2022 کو پاکستان کے 28ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ ان کے عہدے کی مدت رواں ماہ 16 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے  (لاہور ہائی کورٹ)

 

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پیر کو کہا ہے کہ رواں برس عدالت عظمیٰ کو کئی آئینی مسائل میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا، جس سے عدالتی کارروائی متاثر ہوئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ان خیالات کا اظہار اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے الوداعی خطاب کے موقعے پر کیا۔ اس دوران انہوں نے عدالت کی گذشتہ ایک سالہ کارکردگی پر روشنی بھی ڈالی۔

فل کورٹ تقریب میں جسٹس یحییٰ خان آفریدی کے علاوہ تمام ججز شریک ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل اور سینیئر وکلا کی بڑی تعداد بھی تقریب میں شریک ہوئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دو فروری 2022 کو پاکستان کے 28ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ ان کے عہدے کی مدت رواں ماہ 16 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس نے فل کورٹ تقریب سے الوداعی خطاب میں کہا: ’فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے۔ آئینی مسائل میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خود شکار بنی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا: ’سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے طور پر بہت سی امیدیں لے کر جا رہا ہوں اور پر امید ہوں کیونکہ سپریم کورٹ نے بہت مشکل وقت کاٹ لیا ہے۔‘

انہوں نے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے اچھے الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا وہ ’بہت اچھے انسان ہیں، صرف میری اور ان کی سوچ الگ تھی۔‘

چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ’سیاسی لڑائی‘ تھی جبکہ عدالت کی کچھ ’آئینی حدود‘ ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہم میں سے کسی نے بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 90 دن میں کروانے پر اختلاف نہیں کیا، مشکل اس لیے پیش آئی کہ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی، عدالت کی ذمہ داری یہ بتانا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے، عدالت کی بھی کچھ آئینی حدود ہیں جن کے ہم پابند ہیں۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت عظمیٰ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹسز کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا: ’سپریم کورٹ نے سوموٹو نمبر 4/2021 میں ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو واضح کیا، شدید تنقید کے باوجود اس سال کے نو ماہ میں صرف ایک ازخود نوٹس لیا، امید ہے کہ میرے قابل جانشین ازخود نوٹس کے معاملے میں بہتر میکنزم بنائیں گے۔‘

چیف جسٹس نے ایک بار پھر سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے کمرہ عدالت میں کہے گئے اپنے الفاظ ‘گڈ ٹو سی یو‘ پر ہونے والی تنقید کا تذکرہ کیا اور کہا: ’میرے معصومانہ ریمارکس کو طنزیہ بیانات کے طور پر پیش کیا گیا، جب میں نے ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا تو اس کو غلط رپورٹ کیا گیا، میں تو ہر ایک کو ’گڈ ٹو سی یو‘ کہتا ہوں۔‘

مقدمات کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزار مقدمات نمٹائے۔ اس سے پہلے ایک سال میں نمٹائے گئے مقدمات کی زیادہ سے زیادہ تعداد 18 ہزار تھی۔ کوشش تھی کہ زیرالتوا مقدمات 50 ہزار سے کم ہوسکیں لیکن زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں دو ہزار کی کمی ہی کر سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تمام واقعات آڈیو لیکس کیس میں اپنے فیصلے کا حصہ بنائے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تقربب کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ ’کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، کیسز کم کرنے کی کاوشوں کو سراہتے ہیں تاہم ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، عام سائلین کے مقدمات کے بلا تاخیر فیصلے ہونے چاہییں۔‘

اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 184/3 کے دائرہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عام سائلین کے لیے سپریم کورٹ کو اپنی توانائیاں 185 کے تحت آئے ہوئے کیسز کو سننے میں صرف کرنی چاہییں، آرٹیکل 184/3 کے تحت سیاسی اور ہائی پروفائل کیسز کی وجہ سے عام سائلین کے کیسز متاثر ہوتے ہیں جبکہ 184/3 کے مقدمات غیر معمولی اور عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے معاملات میں ہونے چاہییں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدالت کو اختیارات کی آئینی تقسیم کا خیال رکھنا چاہیے، جب اس اصول کا خیال نہیں رکھا جاتا تو عدالت پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی ڈومین میں تجاوز کرتی ہے، آرٹیکل 184/3 کے بلااحتیاط استعمال سے عدالتی تشخص متاثر ہوتا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے ججوں کی تعیناتی اور بینچوں کی تشکیل کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے جوڈیشل اور انتظامی معاملات میں شفافیت کی ضرورت ہے، ججوں کی تعیناتیاں اور بینچوں کی تشکیل چیف جسٹس کرتے ہیں، یہ اختیار چیف جسٹس کو متازع معاملات کے فیصلوں میں غیر متناسب کنٹرول دیتا ہے۔

’بینچوں کی تشکیل اور ججوں کی تعیناتیوں کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنی گئی، اس عدالت نے متعدد مواقعے پر صوابدیدی اختیارات میں شفافیت پر زور دیا ہے، کوئی وجہ نہیں کہ سپریم کورٹ اس اصول کا خود پر بھی اطلاق کرے، نئے عدالتی سال کے ساتھ ساتھ ہم جوڈیشل لیڈر شپ کی تبدیلی کے مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں۔‘

پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین ہارون الرشید نے بھی فل کورٹ سے خطاب کیا اور کہا کہ ’اس وقت عدالت عظمیٰ میں لگ بھگ 60 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ بار ہا التجا اور یاد دہانی کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا اور نہ زیر التوا مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی شفاف نظام وضع نہ کیا جاسکا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ عرصے سے سپریم کورٹ میں مقدمات میں مختصر فیصلہ کرنے کی ایک نئی روش چل پڑی ہے۔ اکثر مقدمات میں بروقت تفصیلی فیصلے جاری نہیں ہوتے، یہاں تک کہ کچھ جج ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں۔

’کچھ کیسوں میں لارجر بینچ بننے کا حکم ہوا لیکن آج تک وہ لارجر بینچ تشکیل نہیں دیے جاسکے، لہذا نامزد چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ نئے اور ارجنٹ کیس جب فائل ہوں تو انہیں اسی ہفتے فکس کیا جائے۔‘

بقول ہارون الرشید: ’ایک عام تاثر ہے کہ چند خاص لوگوں کے مقدمات دائر ہوتے ہی فوراً لگ جاتے ہیں جبکہ عام مقدمات کافی دیر کے بعد فکس ہوتے ہیں، جس سے عوام مایوس ہوتے ہیں، لہذا نامزد چیف جسٹس اس تاثر کو زائل کریں۔‘

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دوران تعطیلات کئی سیاسی نوعیت کے مقدمات بھی سماعت کے لیے مقرر ہوئے، جس کی وجہ سے عوام کو انصاف کی فراہمی کا عمل سست روری کا شکار ہوا۔‘

عابد زبیری نے مزید کہا کہ ’عدالت کی توجہ 90 دن میں انتخابات کروانے کے آئینی معاملے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ الیکشن کمیشن حیلے بہانے کے ذریعے انتخاب آئینی مدت میں کروانے سے گریزاں ہے۔ آئین سے روگردانی پر آرٹیکل چھ کے تحت الیکشن کمیشن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق اپنے فیصلے پر عمل کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انتخابات کے حوالے سے ہماری درخواست کی ابھی تک سنوائی نہیں ہوسکی۔ اسے جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔‘

عابد زبیری کا مزید کہنا تھا کہ ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ کی آڑ میں بنیادی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے یہ بھی کہا کہ ’قوم کی بیٹیاں اور بہنیں من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پر قید ہیں، عدالت اس جبری قید کا نوٹس لے اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں کو فوری مقرر کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان