ہم جب بھی اپنا سبز پاسپورٹ دیکھتے ہیں ہمارے دکھ درد تازہ ہو جاتے ہیں۔
ایسا نہ سمجھیں کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت نہیں ہے۔ ہمیں بالکل اپنے وطن سے محبت ہے۔ جتنی آپ کو ہے اتنی ہی ہمیں بھی ہے، لیکن اس ملک نے ہمیں جو پاسپورٹ دیا ہے اس کی وجہ سے ہماری زندگی مشکل میں ہے۔ آپ کی بھی ہو گی۔
ہم میں سے سمجھ دار وہی ہوتا ہے جو وقت پر ہی اپنا یہ پاسپورٹ کسی اور ملک کے پاسپورٹ سے تبدیل کر لیتا ہے۔
زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔ اسے سسک سسک کر گزارنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ جس ملک میں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات بس امرا تک محدود ہوں اس ملک کی محبت میں ڈوبے رہنا اور اپنے گھر والوں کی زندگی جہنم بنائے رکھنا نری بیوقوفی ہے۔
ہم اس ملک میں رہتے لیکن اس ملک کو چلانے والوں کو نہ اس ملک کا خیال ہے نہ ہماری پروا ہے۔ انہیں اس ملک سے محبت ہوتی تو آج ہمارے پاسپورٹ کا یہ مقام نہ ہوتا، نہ اسے دیکھ کر ہمارے ذہن میں ایسے ویسے خیالات آتے۔
ہم اپنا پاسپورٹ دیکھتے تو خوشی سے پاگل ہو جاتے۔ ہم دنیا کے جس بھی کونے میں جاتے، عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ کاش ایسا ہوتا۔ فی الحال ہم کسی بھی سفارت خانے میں ویزے کی درخواست جمع کرواتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
ایک دفعہ ہماری بیرونِ ملک مقیم کزن کا میسج آیا کہ وہ دو ماہ بعد اپنی سالگرہ منانے اپنی سہیلیوں کے ساتھ یورپ جانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہم بھی اس ٹرپ کا حصہ بنیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم پہلے تو ان کا میسج دیکھ کر دیر تک ہنسے۔ ہم نے انہیں جوابی میسج لکھا کہ بہن، ہم بے شک ایک خاندان سے ہیں لیکن ہمارے پاسپورٹس مختلف ہیں۔ تمہارے پاس دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹس میں سے ایک پاسپورٹ ہے جبکہ ہمارے پاس دنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ ہے۔
جس طرح تم یورپ میں سالگرہ منانے کا اچانک منصوبہ بنا سکتی ہو، ہم ویسے یورپ کی اچانک ویزا درخواست تک جمع نہیں کروا سکتے۔ ہم اگر ویزا کی درخواست جمع کروا بھی دیں تو بھی ہم تمہاری اس سالگرہ میں شریک نہیں ہو سکیں گے، سو ہماری طرف سے معذرت قبول کرو۔
اور سچ پوچھیں تو اس پاسپورٹ پر ویزا کا حصول نہ صرف مشکل ہے بلکہ مہنگا بھی ہے۔
ہمیں کہیں ویزا اپلائی کرنا ہو تو ہم سے 10 طرح کی دستاویزات لی جاتی ہیں جن میں سے ایک لمبا سا بینک سٹیٹمنٹ ہوتا ہے۔ پھر ایک موٹی سی ویزا فیس بھی بھرنی پڑتی ہے جو نان ریفنڈ ایبل ہوتی ہے یعنی ناقابلِ واپسی ہوتی ہے۔
اس کے بعد فلائٹ ٹکٹ خریدنا اور سفر کے اخراجات کرنا الگ مصیبت ہیں۔ سمجھیں مجھ جیسے انسان کا پورا بینک بیلنس ایک چھوٹے سے ملک میں ہفتہ بھر چھٹیاں گزارنے میں خرچ ہو سکتا ہے۔
ہمارے لیے چھٹیاں پلان کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اس معیشت میں دو دن گھر سے باہر اکیلے نہیں گزارے جا سکتے، گھر والوں کے ساتھ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
گوروں کا معاشرہ انفرادیت پر قائم ہے۔ وہ اپنا بیگ اٹھاتے ہیں اور کہیں بھی چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنے کھانے کی تصویر ہی سوشل میڈیا پر ڈال دیں تو پہلا تبصرہ آتا ہے، ’اکیلے اکیلے؟‘
گورے لائٹ ٹریول کرتے ہیں یعنی وہ اپنے ساتھ سفر میں کم سے کم سامان رکھتے ہیں۔ ہم نے کہیں دو دن کے لیے جانا ہو تو ہفتے بھر کا سامان لے کر نکلتے ہیں۔ چلتے چلتے پھر کچھ یاد آ جاتا ہے۔ اسے جلدی سے شاپر میں ڈال لیتے ہیں۔
یہ شاپر ہمارا ٹریڈ مارک ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا سفر ہو ہی نہیں سکتا۔
اتنے سامان کے باوجود ہمیں اس سفر میں دسیوں اشیا خریدنی پڑ جاتی ہیں۔ سفر کے دوران ہمارا جوتا ٹوٹ جاتا ہے اور ایسا اسی کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ صرف ایک جوتا لایا ہوتا ہے۔ ہمیں پھر مجبوراً ایک اضافی خرچ کرنا پڑتا ہے۔
سفر صرف انسٹاگرام کی تصاویر میں اچھا لگتا ہے۔ اصل میں اردو کا سفر انگریزی والا سفر ہی ہوتا ہے۔ اس کے دوران ہونے والی کوفت اور پریشانی تصاویر نہیں دکھاتیں۔
ہماری پہلی پریشانی اس پاسپورٹ پر سفر کرنے کا سوچ کر ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارا پاسپورٹ ہماری آزادی اور نقل و حرکت محدود کرتا ہے۔ کاش ایسا نہ ہوتا یا کاش مستقبل قریب میں ہی یہ صورت حال تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی۔ فی الحال تو بس اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ اس اندھیرے کے اردگرد روشنی ہے۔ اگر اس روشنی تک جا سکتے ہیں تو کیوں نہ جائیں۔
ویسے بھی ہم اپنی تنخواہ میں اس ملک میں رہتے ہوئے بجلی کا بِل بھی ادا نہیں کر سکتے اور بِل ادا نہ کرنے کی صورت میں جو ملک کا نقصان ہو گا، وہ ہمیں گوارا نہیں۔
اس لیے، بس اس ملک کی خاطر ہمیں اس پاسپورٹ کو بدلنے کا موقع ملا تو ہم اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔