شیخوپورہ: رہائشیوں کی احمدیوں کی عبادت گاہ کے تحفظ کی درخواست

آستانہ حیدریہ کرتو والا کے سجادہ نشین اور امن کمیٹی کے سربراہ سید مستجاب حیدر نے کہا کہ ’ہمارے گاؤں میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔‘

22 نومبر، 2015 کو پولیس اہلکار جہلم میں ایک احمدی مسجد کے سامنے پہرہ دیتے ہوئے (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

پنجاب کے شہر شیخوپورہ کے ایک گاؤں ’کرتو والا‘ میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان معززین نے پولیس کو بیان حلفی جمع کرایا ہے، جس میں گاؤں میں 1963 سے تعمیر شدہ احمدی عبادت گاہ ’بیت الذکر‘ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔

گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ، ’اس گاؤں میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں احمدی بھی شامل ہیں مگر وہ آپس میں مل جل کر امن و بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک مذہبی گروپ احمدی عبادت گاہ کے مینار گرانا چاہتا ہے۔ جس سے ہم سب کی نہ صرف دل آزاری بلکہ امن وامان کی فضا خراب ہوسکتی ہے۔ لہذا انہوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنے گاؤں کا امن خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔‘

ترجمان احمدی برادری پاکستان عامر محمود کے مطابق: ’پنجاب بھر میں ایک مذہبی گروپ کی جانب سے اب تک احمدیوں کی 32 عبادت گاہوں پر حملے کر کے نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آج بروز جمعرات کراچی میں بھی ہماری عبادت گاہ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ ان حالات میں کرتو والا گاؤں کے رہائیشیوں کی احمدی عبادت گاہ کے تحفظ کی درخواست کرنا قابل تحسین ہے۔‘

درخواست جمع کرانے کا مقصد

آستانہ حیدریہ کرتو والا کے سجادہ نشین اور امن کمیٹی کے سربراہ سید مستجاب حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے گاؤں میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔

’یہاں امام بارگاہ بھی ہے، مساجد اور احمدیوں کی عبادت گاہ بھی موجود ہے۔ لیکن کبھی کوئی ناخوشگوار یا بد امنی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ مگر اب کچھ دنوں سے ایک مذہبی گروپ متحرک ہوا اور احمدیوں کی عبادت گاہ کے مینار توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پولیس کو بھی درخواست کی کہ احمدیوں کی عبادت گاہ پر مسلمانوں کی مساجد کی طرح مینار نہیں ہو سکتے۔‘

مستجاب حیدر کے بقول، ’اس معاملے پر گاؤں سے تعلق رکھنے والے تمام مسالک کے معززین نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا بد امنی پھیلانے کا سبب بنے گا۔ اس لیے ہم نے بیان حلفی پر 50 سے زائد شہریوں کے دستخطوں سے درخواست ڈی پی او شیخوپورہ کو جمع کرائی۔ ہمارے گاؤں میں ہزار گیارہ سو گھروں پر مشتمل آبادی ہے جو قیام پاکستان سے قبل بھی یہیں آباد تھے، ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔‘

کرتو والا گاؤں کے رہائشی شکیل اختر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے گاوں میں بیشتر لوگوں کا زریعہ معاش کھیتی باڑی یا محنت مزدوری ہے مگر یہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت سے رہتے ہیں ۔ کسی کا کوئی بھی مسلک ہو لیکن لڑائی جھگڑے نہین ہوتے۔ میلاد ہو، جلوس یا کسی بھی مسلک کا کوئی پروگرام ہر کسی کو شرکت کی آزادی ہوتی ہے۔ اسی لیے احمدی عبادت گاہ کے مینار توڑنے کی کوشش سے ایک مذہبی گروپ کو روکنے کے لیے سب متحد ہیں۔ لہذا پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ اس اقدام کو روکنے میں کردار ادا کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا درخواست جمع کرانے کا مقصد گاؤں کے امن وامان کو برقرار رکھنا ہے اور اس بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا ہے۔ ویسے ہی آج کل مہنگائی کی وجہ سے سب مشکلات میں ہیں تو اس طرح کے مذہبی منافرت کا سبب بننے والے کاموں کو روکنا ہی عقل مندی ہے۔‘

ترجمان احمدی برادری پاکستان عامر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کرتو والا گاؤں میں آباد احمدی گھرانوں کی جانب سے کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی نہ انہوں نے کسی کو تنگ کیا نہ ہی انہیں کسی نے کبھی کچھ کہا۔ لیکن اب چند دن سے وہاں مذہبی گروپ ہماری عبادت گاہ کے مینار گرانا چاہتا ہے اور اس کے لیے انہوں نے مہم بھی چلائی مگر گاؤں والوں نے متحد ہوکر فل الحال اسے ناکام بنا دیا۔ ہم کرتو والا گاؤں سے تعلق رکھنے تمام مسالک کے معززین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں اپنا ہم وطن سمجھ کر ہماری مذہبی آزادی کو تسلیم کیا ہے۔‘

احمدیوں کی عبادت گاہوں سے متعلق عدالتی فیصلہ

پاکستان میں جب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے تو انہوں نے مختلف شہروں میں اپنی الگ سے عبادت گاہیں بھی قائم کر رکھی ہوئی ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں سے مذہبی منافرت کے تحت ناخوشگوار واقعات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔

عامر محمود کے بقول، ’ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے مختلف شہروں میں احمدی برادری کی عبادت گاہوں پر حملوں خاص طور پر مینار مسمار کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آج ہی کراچی میں مارٹن روڑ پر ہماری عبادت گاہ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ خاص طور پر مینار مسمار کیے جارہے ہیں۔ اس معاملے پر ہم نے صدر، وزیر اعظم، وزرا اعلی سمیت چیف جسٹس کو بھی خطوط لکھے کہ ہماری عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے بھی حکم دیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو محفوظ بنانے کے لیے الگ سے فورس بنائی جائے۔ ’مگر فورس تو کیا بنتی پولیس بھی حملہ کرنے والوں کو روکنے میں بے بس ہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے بھی اپریل میں اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ ’آئین کا آرٹیکل 260(3) بھی کہتا ہے کہ احمدی/قادیانی غیر مسلم ہیں مگر ان کو پاکستانی شہری ہونے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی ان سے بنیادی حقوق چھینے جا سکتے ہیں جن کی ضمانت آئین فراہم کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل چار بھی یہی کہتا ہے کہ تمام شہری ایک جیسے سلوک کے مستحق ہیں چاہے کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم۔ قانون کے مطابق ہر شہری کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور وہ قانون کے مطابق برتاؤ کے حق دار ہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’1984 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے اور اس سے پہلے بھی ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی بھی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہوں کی علامات پر کوئی دوسرے مذہب یا مسلک کا شہری اعتراض کر سکتا ہے یا اسے گرا سکتا ہے۔ قانون اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ احمدیوں یا قادیانیوں کی عبادت گاہیں جو مساجد کی طرز پر بنی ہیں انہیں مسمار کیا جائے یا نقصان پہنچایا جائے۔‘

کرتو والا گاؤں میں احمدیوں کی عبادت گاہ سے متعلق شہریوں کی درخواست پر شیخوپورہ پولیس کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس حکام نے اس بارے میں کوئی موقف نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان