بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ادویات تیزی سے ختم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے صحت کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ مریضوں کو ہسپتالوں سے واپس بھیجا جا رہا ہے جبکہ متنازع علاقے میں مواصلاتی رابطوں کی مکمل بندش کی وجہ سے لوگ ٹیلی فون کرکے ایمبولینس نہیں بلا سکتے۔
کشمیر کے پہلے ٹراما سینٹر شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال (ایس ایم ایچ ایس) کے وارڈوں میں موجود چند مریض علاج کے انتظار میں ہیں جبکہ ہسپتال کے زیادہ تر بستر خالی پڑے ہیں۔
دوسری جانب جو لوگ ہسپتال پہنچنے میں کامیاب ہو گئے انہیں ڈاکٹروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ کشمیر میں حالات ’معمول‘ پر آنے کے بعد آئیں۔
ایک سرکاری عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ کشمیر کے زیادہ تر ہسپتالوں میں روزانہ ہونے والے آپریشنوں میں 40 سے 60 فیصد کمی آئی ہے۔
ڈاکٹروں کا مؤقف ہے کہ توجہ ایمرجنسی سروسز کی جانب منتقل کر دی گئی ہے جس کی وجہ اموات سے بچنا اور پانچ اگست کو علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بھارتی فیصلے کے خلاف مظاہروں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کا خوف ہے۔
جنوبی کشمیر کے علاقے بیج بہارا میں رہنے والی 62 سالہ خاتون نسیمہ اختر گھر میں پڑی درد سے دہری ہو رہی ہیں۔
ان کے مثانے میں ایک سے زیادہ پتھریوں کی موجودگی کی تشخیص ہوئی ہے جنہیں نکالنے کے لیے آپریشن کی فوری ضرورت ہے لیکن اس مہینے کے شروع میں جب وہ ہسپتال پہنچیں تو انہیں واپس بھیج دیا گیا کیونکہ ڈاکٹروں نے ان کا علاج ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نسیمہ اختر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مجھے شدید درد ہے اور میری سرجری کی کوئی صورت نہیں۔ یہ غیر اخلاقی ہے۔ جب تک صورت حال معمول پر نہیں آجاتی ڈاکٹر آپریشن کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
نسیمہ اختر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے آپریشن کی بجائے انہیں درد ختم کرنے کی ادویات لکھ دی ہیں اور کہا ہے کہ وہ اس وقت دوبارہ ہسپتال آئیں جب نازک سیاسی صورت حال ختم ہو جائے۔
ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے ایک عہدیدار نےدی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ ’ہم سے کہا گیا ہے کہ معمول کے آپریشن نہ کریں کیونکہ خوف ہے کہ پانچ اگست کے فیصلے کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑنے کی صورت میں لوگوں کو خطرناک زخم لگ سکتے ہیں۔‘
سرجن ڈاکٹر اقبال سلیم کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں کسی نامعلوم اورمنڈلاتے سانحہ کا خوف موجود ہے۔ ہمیں پوری طرح تیار رہنا ہوگا۔‘
تشدد کی توقع رکھنے والے ڈاکٹر اقبال سلیم کہتے ہیں انہوں نے عملے کو عام نوعیت کے آپریشن تھیٹرز سے ایمرجنسی تھیٹرز میں منتقل کر دیا ہے جس کی وجہ سے معمول کے آپریشن تاخیر کا شکار ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال سلیم کے مطابق ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں ہر روز اوسطاً 20 آپریشن ہوتے تھے۔ اب وہ چھ سے زیادہ آپریشن نہیں کر سکتے۔
شمالی کشمیر میں 12 سالہ شوکت حسین کا آپریشن بھی نہیں ہو سکتا۔ انہیں ہرنیا کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ شوکت کے والد شمیم حسین کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو ہرنیا کی وجہ سے سخت درد ہوتا ہے۔ وہ اکثر رات کو اٹھ کر روتا ہے۔
شمیم حسین نے کہا: ’وہ تمام دن روتا رہتا ہے اور راتیں تکلیف میں گزرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاج کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
شوکت حسین کو آپریشن کے لیے اگست کے دوسرے ہفتے کا وقت دیا گیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے ان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کشمیر میں بحران ختم ہونے کے بعد آئیں۔
ہسپتال میں علاج کے بعد مریضوں کو وقت سے پہلے گھر بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ ان کے انفیکشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔
سری نگر کے 48 سالہ فاروق قریشی کی آنکھ میں اس وقت اس پیلٹ گن کا چھرہ لگا جب وہ اپنے بیٹے کو اس ٹیوشن سنٹر میں چھوڑنے کے لیے جا رہے تھے جو ٹیچروں نے لاک ڈاؤن کے دوران طلبا کو پڑھانے کے لیے رضاکارانہ طور پر قائم کیا ہے۔
فاروق قریشی کہتے ہیں کہ ’وہ ہمیں گھر بھیج دیتے ہیں۔ انہیں زیادہ پرواہ نہیں ہے کہ ہم باہر جا کر فضا میں موجود آنسو گیس کی آلودگی کی وجہ ہونے والی انفیکشن کے سبب بینائی سے محروم ہو جائیں گے۔‘
ایمرجنسی کیسوں میں بھی فون بند رکھنے کا مطلب ہے کہ کشمیر میں بہت سے لوگ کال کر کے ایمبولینس نہیں بلا سکتے جو انہیں ہسپتال پہنچا دے۔
کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کی حاملہ خاتون فہمیدہ منظور کو درد شروع ہونے کے بعد ہسپتال جانے کے لیے ٹیکسی تک جانے سے پہلے کچھ راستہ پیدل چلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
کشمیر کے ہسپتالوں میں 90 فیصد ادویات اور دوسرا طبی سامان بھارت سے آتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد علاقے کو ادویات کی ایسی قلت کا سامنا ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں موجود نہیں ہے۔ خوف کی وجہ سے ادویات کی خریداری میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کشمیر کیمسٹ اینڈ ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ارشد حسین بھٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’وہ مریض جو عام طور پر ایک ہفتے کی ادویات خریدتا ہے اس نے دو ماہ کی ادویات خریدی ہیں۔‘
’اگر اگلے چند دنوں میں ادویات کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا کہ ہم دکانیں بند کر دیں۔‘
ارشد حسین بھٹ کہتے ہیں کہ سری نگر کے تقریباً تین ہزار ڈسٹری بیوٹروں کو دارالحکومت سے ادویات آتی ہیں لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے کشمیر کے کیمسٹوں کو ادویات فراہم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ادویات نہ ملنے سے شوگر، جریان خون اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
© The Independent