ایک نئی تحقیق کے مطابق اب بادلوں میں خوردبین سے دکھائی دینے والے پلاسٹک کے ذرات پائے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ’پلاسٹک کی بارش‘ ہو رہی ہے۔
سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ پانچ ملی میٹر سے چھوٹے پلاسٹک کے ذرات جنہیں مائیکروپلاسٹکس کہا جاتا ہے، ہر اس شے کو آلودہ کر سکتے ہیں، جسے ہم کھاتے ہیں۔
پلاسٹک کے یہ انتہائی چھوٹے ذرات اس آلودگی کی بھرمار کا نتیجہ ہیں، جو ہماری زمین اور سمندروں میں بڑی مقدار میں موجود ہے۔ پلاسٹک پر مشتمل فضلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے سے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ فضلہ فضا، انسانوں اور دوسرے جانداروں کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ماضی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق پلاسٹک کے یہ ذرات بیماریوں بشمول، سرطان، بانجھ پن اور ہارمونز کے مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔
جاپان کی واسیدا یونیورسٹی کی تحقیق نے پہلی بار اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات بادل بننے کے عمل کو کیسے متاثر کرتے ہیں اور ماحول کے بحران اور انسانی صحت پر ان کے کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
محققین کا ماننا ہے کہ انہوں نے پہلی بار ہوا کے ذریعے بادلوں کے پانی تک پہنچنے والے پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات کا پتہ لگایا ہے۔
اس تحقیق کے شریک مصنف ہیروشی اوکوچی کا کہنا ہے کہ اگر ’پلاسٹک کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے مسئلے کو فعال طریقے سے حل نہ کیا گیا تو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات حقیقت بن سکتے ہیں، جس سے مستقبل میں ناقابل تلافی اور سنگین ماحولیاتی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
اس تحقیق میں محققین نے ماؤنٹ فیوجی (ٹاروبو) کے جنوب مشرقی دامن میں ماؤنٹ فیوجی کی چوٹی اور جاپان میں ماؤنٹ اویاما کی چوٹی سے 1300 سے 3776 میٹر کے درمیان بلندی پر جمع کیے گئے بادلوں کے پانی کا تجزیہ کیا۔
سائنس دانوں نے بادلوں کے پانی میں فضائی مائیکرو پلاسٹکس (اے ایم پی) کی موجودگی کا تعین کرنے کے لیے جدید امیجنگ تکنیک کا استعمال کیا اور ان کی جسمانی اور کیمیائی خصوصیات کا جائزہ لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیم نے ہوا میں موجود ذرات میں نو مختلف اقسام کے مالیکیول اور ایک قسم کا ربڑ دریافت کیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بادلوں کے پانی میں ہوا کے ذریعے پہنچنے والے مائیکرو پلاسٹکس بنیادی طور پر سمندر سے آتے ہیں۔
سائنس دانوں نے وضاحت کی ہے کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ مائیکرو پلاسٹکس بادلوں کا لازمی جزو بن چکے ہیں، جو ’پلاسٹک کی بارش‘ کے ذریعے ہمارے کھانے پینے کی تقریباً ہر چیز کو آلودہ کر دیتے ہیں۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ پلاسٹک کے خوردبینی ذرات کا فضا میں جمع ہونا، خاص طور پر قطبین پر، زمین کے ماحولیاتی توازن کو بھی نمایاں پر تبدیل کر سکتا ہے اور ’حیاتیاتی تنوع کو شدید نقصان‘ پہنچا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اوکوچی کا کہنا تھا کہ ’طاقتور الٹرا وائلٹ شعاعوں کی وجہ سے زمین کے مقابلے میں بالائی فضا میں ’ہوا کے ذریعے پہنچنے والے مائیکرو پلاسٹکس‘ بہت تیزی سے خراب ہوتے ہیں اور ان کی اس خرابی سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کے مطابق: ’نتیجے کے طورپر اس مطالعے کے نتائج کو مستقبل میں گلوبل وارمنگ کے تخمینوں میں (مائیکرو پلاسٹکس) کے اثرات کا حساب کتاب لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
© The Independent